تل ابیب، اسرائیل: اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ، اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے کی جنگ بندی کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی میں "کچھ تاخیر" ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حملہ شروع ہو گیا تو کچھ ہفتوں میں اس علاقہ میں فتح حاصل ہو جائے گی۔
نتن یاہو نے سی بی ایس کو تصدیق کی کہ ایک معاہدے پر کام جاری ہے۔ اتوار کو قطر میں بات چیت کا دوبارہ آغاز ہوا، مصر کے سرکاری نشریاتی ادارے القہرہ ٹی وی نے ایک مصری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ قاہرہ میں جنگ بندی کے حصول اور غزہ میں قید درجنوں یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی آزادی کے مقصد سے بات چیت جاری ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے این بی سی کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن کو رفح منصوبے کے بارے میں بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ سلیوان نے کہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آپریشن اس وقت تک آگے نہیں بڑھنا چاہیے جب تک کہ ہم (شہریوں کے تحفظ کا منصوبہ) نہ دیکھ لیں۔"
پیر کے اوائل میں، نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ فوج نے جنگی کابینہ کو رفح کے لیے اپنا "آپریشنل پلان" پیش کیا ہے اور ساتھ ہی رفح سے شہریوں کو نکالنے کے منصوبے بھی پیش کیے ہیں۔
نتن یاہو کے دفتر نے یہ بھی کہا کہ جنگی کابینہ نے غزہ میں انسانی امداد بحفاظت پہنچانے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔
- مجوزہ جنگ بندی معاہدہ کی تفصیلات:
قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہے مصر کے ایک سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے مسودے میں 300 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 40 خواتین اور معمر یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔ ان میں زیادہ تر خواتین، نابالغ ہیں۔
اس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذاکرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی میں چھ ہفتے کے مجوزہ توقف میں شمال سمیت ہر روز سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں اشد ضروری امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں نے مزید رہائی اور مستقل جنگ بندی کے وقفے کے دوران بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
مذاکرات کاروں کو رمضان کے آغاز کی ایک غیر سرکاری ڈیڈ لائن کا سامنا بھی ہے، رمضان میں اکثر اسرائیل-فلسطینی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ، مصر اور قطر کی طرف سے تیار کردہ تازہ ترین تجویز میں شامل نہیں ہے، لیکن رپورٹ شدہ خاکہ بڑی حد تک جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے لیے اس کی پہلی تجویز سے میل کھاتا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرے گا جب تک کہ اسرائیل اپنی جارحیت ختم نہیں کرتا اور اپنی فوجیں علاقے سے نہیں نکال لیتا، اور سینیئر عسکریت پسندوں سمیت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو رہا نہیں کر دیتا۔ حالانکہ نتن یاہو حماس کی ان شرائط کو مسترد کر چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اتوار کے روز واضح کیا کہ غزہ کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ حماس کے اتحادی حزب اللہ کے ساتھ فوج کی جھڑپوں کو متاثر نہیں کرے گا۔
اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائیوں نے غزہ کی 80 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ غزہ میں لاکھوں افراد کو بھوک اور بیماری کے پھیلنے کا خطرہ لاحق ہے۔ حماس کے زیر اقتدار غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ میں 29,692 فلسطینی مارے گئے ہیں، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوجیوں نے جنگ کے آغاز سے اب تک 10,000 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ حالانکہ اسرائیل نے کبھی اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- غزہ میں رمضان المبارک سے پہلے جنگ بندی کا امکان
- غزہ موت کا علاقہ بن چکا ہے: ڈبلیو ایچ او چیف
- رفح سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی میں حصہ نہیں لیں گے:اقوام متحدہ
- رفح پر اسرائیلی حملے کے خطرے کے درمیان عرب گروپ اور اقوام متحدہ نے کیا خبردار
- رفح سے متعلق جنوبی افریقہ کی درخواست عالمی عدالت سے مسترد، اسرائیل کو سابقہ حکم پر عمل کرنے کی ہدایت
- یورپی یونین نے غزہ کے شہر رفح پر حملے کے اسرائیلی منصوبے پر تشویش ظاہر کی
- شمالی غزہ میں خوراک کی ترسیل روک دی گئی، خطے میں قحط کا خطرہ بڑھا