غزہ کی پٹی: اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعے نے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے، غزہ کے فلسطینی حیران ہیں کہ تقریباً ایک سال کی تباہ کن جنگ کے بعد ان کی حالت زار کیا ہو گی؟ وہ خوفزدہ ہیں کہ بین الاقوامی تشویش کا رخ موڑ دیا گیا ہے، اور یہ کہ ایک تاریک امکان ہے۔ غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کو بھی یہی پریشانی ہے۔
اسرائیل-حماس جنگ شروع ہونے کے بعد سے بے گھر ہونے والے تقریباً 1.9 ملین فلسطینیوں میں سے ایک، نزار زقوت نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل-لبنان کی جنگ غزہ کے ابتر حالات زندگی اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی کوششوں میں دلچسپی کم کر دے گی۔
زقوت نے کہا کہ، "ہم مکمل طور پر بھولائے جا چکے ہیں، میڈیا میں ہمارے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔"
غزہ کے ابتر حالات دائمی ہو جائیں گے۔ نوے فیصد آبادی بے گھر ہے، سیکڑوں ہزاروں غیر محفوظ خیمہ کیمپوں میں خوراک اور صاف پانی کی تلاش کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
خان یونس سے غزہ کے ایک وسیع خیمہ کیمپ میں پناہ لینے والے سعدی ابو مصطفی نے کہا کہ، "ایک سال گزر گیا، اور کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے۔ ہر روز بمباری ہوتی ہے، ہر روز فلسطینی شہید ہوتے ہیں، اور ہر روز زخمی ہوتے ہیں،"۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، سات اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت میں 41,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 95,000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔
غزہ میں مہینوں سے جاری شدید فضائی اور زمینی حملوں نے تمام مکانات کو زمین بوس کر دیا ہے۔ سیٹلائٹ کی تصویروں کا مطالعہ کرنے والے محققین کا اندازہ ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 60 فیصد عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کا ماننا ہے کہ 100 یرغمالیوں میں سے تقریباً 70 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔ ان کے خاندانوں کو خوف ہے کہ جنگ کے خاتمے پر حکومت کی توجہ ختم ہو رہی ہے۔
ایک یرغمالی طلحیمی کے ایک رشتہ دار اُدی گورین نے کہا کہ، "میری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ عوام کی تمام تر توجہ اور دنیا کی توجہ شمال کی طرف ہو جائے گی،"۔ انھوں نے مزید کہا کہ، "بالآخر یرغمالیوں کو مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔"
چونکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہمہ گیر جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے، اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوج کی موجودگی کم کر دی ہے تاکہ اہم یونٹوں کو لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحد پر منتقل کیا جا سکے۔ اس کے باوجود ہزاروں فوجی غزہ میں موجود ہیں، وہ اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور بے گھر فلسطینیوں کو گھروں کو واپس جانے سے روک رہے ہیں۔
غزہ میں بھی روزانہ حملے جاری ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، ہفتے کے روز شمالی غزہ میں پناہ گاہ میں تبدیل کیے گئے اسکول پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور 30 دیگر زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
حالیہ بارشوں نے اسرائیل کے نامزد کردہ محفوظ زون مواسی میں رہنے والوں کے حالات کو پہلے سے ہی مشکل بنا دیا ہے۔ اتوار کے روز، وہاں رہنے والے بچے ننگے پاؤں کیچڑ میں سے گزرے جو ان کے ٹخنوں کے اوپر پہنچ گیا تھا۔
غزہ شہر سے بے گھر ہونے والی ایک ماں رانا گوزات نے کہا کہ، "پورا کچن جس میں ہم کھانا بناتے ہیں پانی سے بھرا ہوا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ یہ سردیوں کا آغاز ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟"۔
فلسطینیوں نے غزہ کے موجودہ حالات پر افسوس کا اظہار کیا اور بین الاقوامی گروپوں سے غزہ میں انسانی بحران پر توجہ دلانے میں مدد کی درخواست کی۔
ایناس کولاب نے کہا، "ہم امید کرتے ہیں کہ تمام لوگ ہماری پرواہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں،"۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ کرانے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تھم گئی ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے پر بد نیتی کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ناقابل قبول مطالبات کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روکنے کے لیے اسرائیل کو غزہ کے دو علاقوں میں فوج کو رکھنا ضروری ہے۔ لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے سے اتفاق نہیں کرے گی جس سے اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں رہنے کی اجازت ہو۔
معاہدے کی امیدیں مزید مدھم ہو گئی ہیں کیونکہ بات چیت کا ایک اہم ثالث امریکہ اپنے قریبی اتحادی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے خطے کے دورے میں، سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے صرف مصر کا دورہ کیا کیونکہ امریکی حکام کا خیال تھا کہ انہیں معاہدے کی حمایت میں اسرائیل کا سفر کرنے سے نتن یاہو کو کچھ ایسا کہنا پڑ سکتا ہے جس سے ثالثی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
جنگ کے بعد غزہ کے لیے ابھی تک کوئی واضح وژن سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ پتہ نہیں ہے کہ جنگ کے بعد غزہ میں رہنمائی اور حکومت کون کرے گا - لیکن ایک بات واضح ہے: علاقے کی تعمیر نو میں کئی دہائیاں لگیں گی۔ اقوام متحدہ نے اس موسم گرما میں اندازہ لگایا ہے کہ صرف 40 ملین ٹن ملبے کو ہٹانے میں 15 سال لگ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: