بنگلہ دیش: بریگیڈیئر جنرل (معطل) عبداللہ الامان اعظمی اور سپریم کورٹ کے وکیل احمد بن قاسم ارمان کو آٹھ سال کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، وہ منگل کو علی الصبح اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ دریں اثنا، بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے اپنے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کے ذریعے ان کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔
واضعے رہے کہ عبداللہ الامان اعظمی بنگلہ دیشی فوج کے سابق افسر اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سابق امیر، غلام اعظم کے بیٹے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش میں جبری گمشدگی کا شکار تھے۔
6 اگست 2024 کو، انہیں آئینہ گھر (ڈی جی ایف آئی کی طرف سے چھپی ہوئی قیدی جگہ) سے رہا کیا گیا، آئینہ گھر دراصل خوف کا گڑھ ہے۔ وہاں حراست میں رکھے گئے اور رہا کیے جانے والے لوگ مشکل سے ہی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہاں ان پر کیا گزری۔ یہ سیاسی قیدیوں کے لئے کسی جہنم سے کم نہیں ہے اور بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ سیاسی قیدیوں کو یہیں قید کرکے رکھواتی تھیں۔
غور طلب ہے کہ امان اعظمی اور سپریم کورٹ کے وکیل احمد بن کاشم ارمان کی رہائی کے صرف ایک دن بعد شیخ حسینہ کو استعفیٰ دینے اور ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جو کہ بنگلہ دیشی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے۔
ارمان کو 9 اگست 2016 کو ڈھاکہ میں میرپور کے ڈی او ایچ ایس علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اور اسی سال 23 اگست کو عظمیٰ کو زبردستی اٹھایا لیا گیا۔ ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ تب سے لاپتہ تھے۔ اور ہم کو بھی اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔
اسی سال ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق، بنگلہ دیشی آرمی نے 2009 سے لے کر اب تک تقریباً 600 لوگوں کو زبردستی آئینہ گھر میں قید کیا ہے یا دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ واضعے رہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی مدد لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے الزامات کی تحقیقات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ ابھی بھی 100 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
2022 میں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا کہ پارٹی کی قائم مقام چیئرمین اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمٰن بھی آئینہ گھر کا شکار ہوئے۔ طارق رحمٰن، جو بعد میں لندن منتقل ہو گئے تھے والدہ کی رہائی کے بعد بنگلہ دیش واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: