ETV Bharat / entertainment

پردیپ، محب وطن کے گیت لکھنے کے لئے مشہور تھے

چھ فروری، 1915 کو متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے پردیپ کو بچپن سے ہی ہندی شاعری لکھنے کا ایک جذبہ تھا، سال 1940 میں ہندستان کی آزادی کی جدوجہد میں شاعر پردیپ بھی مہم میں شامل ہو گئے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2024, 12:59 PM IST

Birth Anniversary of song writer Pradeep
پردیپ، محب وطن کے گیت لکھنے کے لئے مشہور تھے

ممبئی: یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں بہادروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے گیتوں کی تخلیق ہوچکی ہے لیکن 'اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئے ہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی' جیسے گیت لکھنے والے وطن پرست رام چندر دویدی عرف پردیپ کے اس گیت کی بات ہی کچھ خاص ہے۔

سال 1962 میں جب ہندستان اور چین کی جنگ اپنے عروج پر تھی تب شاعر پردیپ 'پرم ویر میجر شیطان سنگھ' کی بہادری اور قربانی سے کافی متاثر ہوئے اور ملک کے بہادروں کو خراج عقیدت دینے کے لیے انہوں نے اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا یاد کرو قربانی گانا لکھا۔ سری رام چندر کی موسیقی سے سجے اس گیت کو سن کر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔ اے میرے وطن کے لوگوں آج بھی ہندستان کے عظیم محب وطن گیت کے طور میں یاد کیا جاتا ہے۔

چھ فروری، 1915کو متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے پردیپ کو بچپن سے ہی ہندی شاعری لکھنے کا ایک جذبہ تھا، سال 1939 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استاد بننے کی کوشش کی لیکن اسی دوران انہیں ممبئی میں ہو رہے ایک مشاعرے میں حصہ لینے کی دعوت ملی۔

مشاعرے میں ان کے گیتوں کو سن کر بمبئی ٹاکیز اسٹوڈیو کے مالک همانشو رائے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے پردیپ کو اپنے بینر تلے بن رہی فلم 'کنگن' کے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ سال 1939 میں آئی فلم کنگن میں ان کے گیتوں کی کامیابی کے بعد پردیپ بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم کے لئے لکھے چار گیتوں میں سے، پردیپ نے تین گیتوں کو اپنی آواز دی۔

سال 1940 میں، ہندستان کی آزادی کی جدوجہد میں شاعر پردیپ بھی مہم میں شامل ہو گئے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

سال 1940 میں گیان مکھرجی کی ہدایت میں انہوں نے فلم 'بندھن' کے لیے بھی گیت لکھا۔ چل چل رے نوجوان.. کی دھن والے نغمہ نے آزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھرنے کا کام کیا۔ اپنے نغمے کو پردیپ نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس کے بعد پردیپ نے بمبئی ٹاکیز کی ہی فلم نیا سنسار، انجان، پنر ملن، جھولا اور قسمت کے لیے بھی گیت لکھے۔ چالیس کی دہائی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی انگریزی حکومت کے خلاف بھارت جوڑو تحریک اپنے عروج پر تھی۔ سال 1943 میں آئی فلم 'قسمت' میں پردیپ کے لکھے نغمہ آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے جیسے نغمہ نے نہ صرف ہندستانیوں کو جھنجھوڑا بلکہ وہ انگریزوں کی ترچھی نظر کے بھی شکار ہوئے۔

سال 1975 میں آئی فلم جے سنتوشی ماں کے ایک نغمے نے پھر پردیپ کو شہرت کی بلندیوں پر جا بیٹھے۔ جے سنتوشی ماں کا گیت اس قدر مقبول ہوا کہ کئی شہروں میں اس فلم نے ہندی سنیما کی تاریخ میں سب سے کامیاب فلم مانی جانے فلم شعلے کا بھی باکس آفس ریکارڈ توڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: گریمی ایوارڈ ذاکر حسین اور شنکر مہادیون کے البم 'دِز مومنٹ' کے نام

پردیپ کو فلمی دنیا میں ان کی اہم خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں سال 1998 میں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1961 میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، فلم جرنلسٹ ایوارڈ، امپا ایوارڈ، عظیم اداکار ایوارڈ، راجیو گاندھی ایوارڈ، سر سنگار ایوارڈ، سنت گیانیشور ایوارڈ اورنیشنل انٹی گریشن ایوارڈ 1993 میں پردیپ سرفراز کئے گئے۔ اپنے نغموں کے ذریعہ عوام کے دلوں میں حکومت کرنے والے پردیپ 11 دسمبر 1998 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ (یو این آئی)

ممبئی: یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں بہادروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے گیتوں کی تخلیق ہوچکی ہے لیکن 'اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئے ہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی' جیسے گیت لکھنے والے وطن پرست رام چندر دویدی عرف پردیپ کے اس گیت کی بات ہی کچھ خاص ہے۔

سال 1962 میں جب ہندستان اور چین کی جنگ اپنے عروج پر تھی تب شاعر پردیپ 'پرم ویر میجر شیطان سنگھ' کی بہادری اور قربانی سے کافی متاثر ہوئے اور ملک کے بہادروں کو خراج عقیدت دینے کے لیے انہوں نے اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا یاد کرو قربانی گانا لکھا۔ سری رام چندر کی موسیقی سے سجے اس گیت کو سن کر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔ اے میرے وطن کے لوگوں آج بھی ہندستان کے عظیم محب وطن گیت کے طور میں یاد کیا جاتا ہے۔

چھ فروری، 1915کو متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے پردیپ کو بچپن سے ہی ہندی شاعری لکھنے کا ایک جذبہ تھا، سال 1939 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استاد بننے کی کوشش کی لیکن اسی دوران انہیں ممبئی میں ہو رہے ایک مشاعرے میں حصہ لینے کی دعوت ملی۔

مشاعرے میں ان کے گیتوں کو سن کر بمبئی ٹاکیز اسٹوڈیو کے مالک همانشو رائے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے پردیپ کو اپنے بینر تلے بن رہی فلم 'کنگن' کے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ سال 1939 میں آئی فلم کنگن میں ان کے گیتوں کی کامیابی کے بعد پردیپ بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم کے لئے لکھے چار گیتوں میں سے، پردیپ نے تین گیتوں کو اپنی آواز دی۔

سال 1940 میں، ہندستان کی آزادی کی جدوجہد میں شاعر پردیپ بھی مہم میں شامل ہو گئے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

سال 1940 میں گیان مکھرجی کی ہدایت میں انہوں نے فلم 'بندھن' کے لیے بھی گیت لکھا۔ چل چل رے نوجوان.. کی دھن والے نغمہ نے آزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھرنے کا کام کیا۔ اپنے نغمے کو پردیپ نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس کے بعد پردیپ نے بمبئی ٹاکیز کی ہی فلم نیا سنسار، انجان، پنر ملن، جھولا اور قسمت کے لیے بھی گیت لکھے۔ چالیس کی دہائی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی انگریزی حکومت کے خلاف بھارت جوڑو تحریک اپنے عروج پر تھی۔ سال 1943 میں آئی فلم 'قسمت' میں پردیپ کے لکھے نغمہ آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے جیسے نغمہ نے نہ صرف ہندستانیوں کو جھنجھوڑا بلکہ وہ انگریزوں کی ترچھی نظر کے بھی شکار ہوئے۔

سال 1975 میں آئی فلم جے سنتوشی ماں کے ایک نغمے نے پھر پردیپ کو شہرت کی بلندیوں پر جا بیٹھے۔ جے سنتوشی ماں کا گیت اس قدر مقبول ہوا کہ کئی شہروں میں اس فلم نے ہندی سنیما کی تاریخ میں سب سے کامیاب فلم مانی جانے فلم شعلے کا بھی باکس آفس ریکارڈ توڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: گریمی ایوارڈ ذاکر حسین اور شنکر مہادیون کے البم 'دِز مومنٹ' کے نام

پردیپ کو فلمی دنیا میں ان کی اہم خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں سال 1998 میں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1961 میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، فلم جرنلسٹ ایوارڈ، امپا ایوارڈ، عظیم اداکار ایوارڈ، راجیو گاندھی ایوارڈ، سر سنگار ایوارڈ، سنت گیانیشور ایوارڈ اورنیشنل انٹی گریشن ایوارڈ 1993 میں پردیپ سرفراز کئے گئے۔ اپنے نغموں کے ذریعہ عوام کے دلوں میں حکومت کرنے والے پردیپ 11 دسمبر 1998 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ (یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.