ETV Bharat / bharat

کیا مسلمان وقف ترمیمی بل کی جنگ جیت پائیں گے؟ جانیے کس بات کا ہے امکان - Will Muslims win - WILL MUSLIMS WIN

وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں 25 کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں صرف تقریباً چار کروڑ آن لائن مخالفتی پیغام ہی روانہ کر پانے میں کامیاب ہو پائے۔ دوسری جانب وی ایچ پی سمیت دیگر ہندو تنظیموں نے وقف ترمیمی بل کی حمایت میں مہم چلائی تھی۔ اب ہار جیت کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ سوا سو کروڑ آبادی والے اس ملک میں غیر مسلموں کی آبادی مسلمانوں سے چار گنا زیادہ ہے۔

کیا مسلمان وقف ترمیمی بل کی جنگ جیت پائیں گے؟
کیا مسلمان وقف ترمیمی بل کی جنگ جیت پائیں گے؟ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 16, 2024, 3:53 PM IST

حیدرآباد: وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمیعت علماء ہند و دیگر مسلم و ملی تنظیموں کی جانب سے جے پی سی کو آن لائن مخالفتی پیغام روانہ کرنے کی جو مہم چلائی گئی اُسے پوری طرح کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی بڑی وجہ ہے مسلمانوں کی جانب سے اتنی کم تعداد میں پیغام روانہ کیا جانا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے مسلمانوں کو وقف ترمیمی بل کے مضر اثرات پتہ نہیں چل پائے یا پھر مسلمانوں کی اکثریت وقف بورڈ کی کارکردگی سے ہی ناواقف ہے؟

حالانکہ مسلم تنظیمیں اس بات سے واقف تھیں کہ وقف ترمیمی بل سے متعلق جے پی سی نے مسلمانوں نہیں بلکہ عوام کی رائے طلب کی تھی۔ عوام یعنی مسلمانوں کے علاوہ ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی رائے طلب کی گئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ برابری کا میدان ہی نہیں تھا کیونکہ مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کے چھٹے حصے سے بھی کم ہیں اور ہندوؤں کے مقابلے میں ان کا تناسب کافی کم ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جے پی سی کی جنگ کے ایگزٹ پولز پہلے ہی ہندوؤں کی جیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کچھ مقامی تنظیموں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 10 میں سے 9 لوگ وقف ترمیمی بل کی حمایت کر رہے تھے۔

تو کیا مسلمانوں کو سب سے پہلے جے پی سی کی اس چال کی مخالفت نہیں کرنا چاہیئے تھا جس کا جے پی سی نے ہتھیار کی طرح استعمال کیا؟ کیا یہ بات واضح نہیں تھی کہ وقف شریعت کے تحت ایک غیر منقطع خیراتی وقف ہے، ایک خالصتاً اسلامی ادارہ ہے اور اس کا اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ کسی مذہب یا برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے یا ترمیم سے پہلے صرف اور صرف مسلمانوں سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن جے پی سی نے بظاہر کھیل کے اپنے اصول طے کیے اور بڑی چالاکی سے ہندؤوں کو بھی اس کی اپیل کے جواب دہندگان کے طور پر شامل کر لیا۔

اب اسے بھول کہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کرنا، مسلم و ملی تنظیموں کے علاوہ تمام مسلمانان ہند حکومت کے اس جال میں پھنس ہی گئے۔ مستقبل میں حکومت جے پی سی کے اس حربہ کو ایک دھار دار ہتھیار کی طرح استعمال نہیں کرے گی اس کی کیا گارنٹی ہے؟ اگر مسلمان وقف ترمیمی بل کی جنگ ہار جاتا ہے تو اس کا امکان ہے کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرے مثلاً حجاب پر پابندی، مسلمانوں کے پرسنل لاز کو ختم کرنا، مدارس کو بند کرانا جیسے ایشوز پر ایک جے پی سی بنائے اور عوام کی رائے طلب کر لی جائے۔

اب ملک کے عوام نے وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو روانہ کر دی ہے۔ اب گیند جے پی سی کے پالے میں ہے۔ جے پی سی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی امید ہے۔ اس سے قبل 18 سے 20 ستمبر تک جے پی سی کی چوتھی میٹنگ منعقد ہوگی، جس میں کچھ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم راشٹریہ منچ کے عہدیداروں کی رائے یا سفارشات سنی جائیں گی۔ حالانکہ اس سے قبل جو جے پی سی کی تین میٹنگیں ہوئی ہیں اس میں اپوزیشن نے بل کی مسلسل مخالفت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

حیدرآباد: وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمیعت علماء ہند و دیگر مسلم و ملی تنظیموں کی جانب سے جے پی سی کو آن لائن مخالفتی پیغام روانہ کرنے کی جو مہم چلائی گئی اُسے پوری طرح کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی بڑی وجہ ہے مسلمانوں کی جانب سے اتنی کم تعداد میں پیغام روانہ کیا جانا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے مسلمانوں کو وقف ترمیمی بل کے مضر اثرات پتہ نہیں چل پائے یا پھر مسلمانوں کی اکثریت وقف بورڈ کی کارکردگی سے ہی ناواقف ہے؟

حالانکہ مسلم تنظیمیں اس بات سے واقف تھیں کہ وقف ترمیمی بل سے متعلق جے پی سی نے مسلمانوں نہیں بلکہ عوام کی رائے طلب کی تھی۔ عوام یعنی مسلمانوں کے علاوہ ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی رائے طلب کی گئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ برابری کا میدان ہی نہیں تھا کیونکہ مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کے چھٹے حصے سے بھی کم ہیں اور ہندوؤں کے مقابلے میں ان کا تناسب کافی کم ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جے پی سی کی جنگ کے ایگزٹ پولز پہلے ہی ہندوؤں کی جیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کچھ مقامی تنظیموں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 10 میں سے 9 لوگ وقف ترمیمی بل کی حمایت کر رہے تھے۔

تو کیا مسلمانوں کو سب سے پہلے جے پی سی کی اس چال کی مخالفت نہیں کرنا چاہیئے تھا جس کا جے پی سی نے ہتھیار کی طرح استعمال کیا؟ کیا یہ بات واضح نہیں تھی کہ وقف شریعت کے تحت ایک غیر منقطع خیراتی وقف ہے، ایک خالصتاً اسلامی ادارہ ہے اور اس کا اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ کسی مذہب یا برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے یا ترمیم سے پہلے صرف اور صرف مسلمانوں سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن جے پی سی نے بظاہر کھیل کے اپنے اصول طے کیے اور بڑی چالاکی سے ہندؤوں کو بھی اس کی اپیل کے جواب دہندگان کے طور پر شامل کر لیا۔

اب اسے بھول کہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کرنا، مسلم و ملی تنظیموں کے علاوہ تمام مسلمانان ہند حکومت کے اس جال میں پھنس ہی گئے۔ مستقبل میں حکومت جے پی سی کے اس حربہ کو ایک دھار دار ہتھیار کی طرح استعمال نہیں کرے گی اس کی کیا گارنٹی ہے؟ اگر مسلمان وقف ترمیمی بل کی جنگ ہار جاتا ہے تو اس کا امکان ہے کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرے مثلاً حجاب پر پابندی، مسلمانوں کے پرسنل لاز کو ختم کرنا، مدارس کو بند کرانا جیسے ایشوز پر ایک جے پی سی بنائے اور عوام کی رائے طلب کر لی جائے۔

اب ملک کے عوام نے وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو روانہ کر دی ہے۔ اب گیند جے پی سی کے پالے میں ہے۔ جے پی سی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی امید ہے۔ اس سے قبل 18 سے 20 ستمبر تک جے پی سی کی چوتھی میٹنگ منعقد ہوگی، جس میں کچھ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم راشٹریہ منچ کے عہدیداروں کی رائے یا سفارشات سنی جائیں گی۔ حالانکہ اس سے قبل جو جے پی سی کی تین میٹنگیں ہوئی ہیں اس میں اپوزیشن نے بل کی مسلسل مخالفت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.