حیدرآباد: اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پر تنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرما دیے۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دی ہے، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت بھی دے دی، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی بھی اجازت دے دی۔
ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دے دی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا۔
ای ٹی وی بھارت کے پروگرام "رونقِ رمضان" میں مشہور عالمِ دین حافظ و قاری مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی صاحب نے "رمضان کا پیغام " کے حوالہ سے عنوان پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ روزے کا اصل پیغام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کو کس طرح سے لوگوں کے ساتھ معاملات کرنا چاہیے۔
مفتی عمر عابدین صاحب نے فرمایا کہ اپنے سماجی رویہ میں ہم کو تبدیلی لانا چاہئے۔ برائی کا جواب اچھائی سے اور غصہ کا جواب محبت سے دینا چاہئے، عداوت کو ختم کرنے کے لیے اخوت سے کام کرنا چاہئے۔ لوگوں کی برائی کا جواب برائی سے نہ دیکر غصہ کو جزب کرنے کی عادت ڈالنا چاہئے۔
جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔
مفتی عمر عابدین صاحب نے آگے فرمایا کہ دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ومددگار اور تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح سے رمضان کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے۔
روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے۔ اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔ یہی رمضان کا پیغام ہے۔