نئی دہلی: بلڈوزر جسٹس پر جمعیۃ علماء ہند کی عرضداشت پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے بلڈوزر جسٹس کو ناقابل قبول قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ حکام من مانے طریقہ سے کام نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ، افسر عدالت کی طرح کام نہیں کر سکتے، کیونکہ انتظامیہ عدالت نہیں ہے۔ کسی کے ملزم ہونے پر اس کا گھر نہیں گرایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے سختی سے کہا کہ، اگر غلط کارروائی کی گئی تو حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
Supreme Court holds that the state and its officials can't take arbitrary and excessive measures.
— ANI (@ANI) November 13, 2024
Supreme Court says the executive can't declare a person guilty and can't become a judge and decide to demolish the property of an accused person. https://t.co/ObSECsK3cv
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ بغیر سنوائی کے کسی کو مجرم قرار نہیں دیا سکتا اور جرم کی سزا گھر توڑنا نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ، ملزم ایک ہے تو پورے خاندان کو سزا کیوں ملے؟۔ سپریم کورٹ نے زور دے کر کہا کہ ایسی کارروائیاں قانون نہیں ہونے کا شک پیدا کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ، اگر کسی کا گھر غلط طریقہ سے توڑا گیا ہے تو اسے معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ، ریاست میں نظم وضبط برقرار رکھنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے، ریاست میں قانون کا راج ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرنا ہے تو وہ قانون کے مطابق ہونی چاہیئے۔ متعلقہ شخص کو 15 دن پہلے اس ضمن میں نوٹس بھیجا جائے۔ نوٹس پر ڈی ایم نوڈل افسر بنائے۔
سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ، اقتدار کا غلط استعمال قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔