نئی دہلی: سینئر وکلاء نے جمعہ کے روز چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو خط لکھا ہے کہ وہ سی بی آئی کو ہدایت دیں کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس مذکورہ جج کی طرف سے آٹھ دسمبر 2024 کو وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام ایک تقریب کے دوران کی گئی فرقہ پرستانہ تقریر کا از خود نوٹس لیں اور انکے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات صادر کریں۔
یہ عرضی عدالت عظمیٰ کے سکریٹری جنرل کے ذریعے چیف جسٹس کو بھیجی گئی ہے اور اس کی کاپی دیگر سینئر ججوں بشمول جسٹس بی آر گاوائی، سوریہ کانت، ہریشکیش رائے اور اے ایس اوکا کو بھیجی گئی ہے۔ یہ عرضی سینئر وکلاء بشمول اندرا جے سنگھ، اسپی چنائے، نوروز سیروائی، آنند گروور، چندر ادے سنگھ، جے دیپ گپتا، موہن وی کٹارکی، شعیب عالم، آر وائیگائی، مہر دیسائی اور جینت بھوشن نے دائر کی ہے۔
ایک ای میل کے ذریعے بھیجی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اصلاحات کے پس منظر میں بات کرتے ہوئے جسٹس یادو نے جو لہجہ استعمال کیا ہے اس میں زبردستی اور (دوسرے فرقے پر ) غلبے کا لہجہ استعمال کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یادو نے کہا ہے کہ ہندوؤں نے ستی اور چھوت چھات جیسے روایتی طریقوں کی اصلاح کی ہے، اسی طرح مسلمان بھی تعدد ازدواج اور تین طلاق جیسی روایات کو ترک کردیں۔
وکلاء کے مطابق بظاہر جسٹس یادو یونیفارم سول کوڈ پر تبصرہ کر رہے تھے، لیکن اسکی آڑ میں پوری تقریر ایک عوامی پلیٹ فارم پر نفرت انگیز تقریر پھیلانے کے لیے کی گئی ہے۔ خط کے مطابق پوری تقریر میں کوئی علمی، قانونی یا فقہی بات نہیں تھی۔
سینئر وکلاء نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ وہ جسٹس یادو کی تقریر کا ازخود نوٹس لیں اور معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سی بی آئی کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کریں۔
وکلاء نے مکتوب میں لکھا کہ، یہ خط آپ کو چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے، عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے والے معاملے کی سنگینی کی روشنی میں اس لیے لکھا جا رہا ہے کہ تحقیقات کے لیے ریاست کا غیر جانبدارانہ اور خود مختار ہونا ضروری ہے۔آپ سے التماس ہے کہ مذکورہ جج کے ذریعہ کئے گئے قابل شناخت جرائم کا از خود نوٹس لیں اور جسٹس یادو کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے ایف آئی آر درج کرنے کے لئے سی بی آئی کو ہدایات جاری کریں۔
درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کی جانب سے عوامی تقریب میں اس طرح کے فرقہ وارایت سے لیس بیان سے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ عدلیہ کی سالمیت اور غیر جانبداری پر عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔
سینئر وکلاء نے اس بات پر زور دیا کہ جسٹس یادو کی تقریب میں شرکت اور ان کے اشتعال انگیز بیانات آئین کی دفعات 14، 21، 25 اور 26 کی نہ صرف صریح خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ آئین کی تمہید کے ساتھ بھی متصادم ہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ جج کی ہرزہ سرائی نہ صرف امتیازی ہے بلکہ سیکولرازم اور قانون کے سامنے برابری کے بنیادی اصولوں سے براہ راست متصادم ہیں، جو ہمارے آئین کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
وکلاء نے کہا کہ جسٹس یادو کے تبصروں نے دو مذہبی برادریوں کے درمیان "ایک سخت اور اشتعال انگیز فرق پیدا کیا"، اور مزید کہا کہ یہ عدالتی غیر جانبداری کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک کھلم کھلا تفرقہ انگیز بیان بازی ہے۔
جسٹس یادو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تبصروں کی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل جسٹس یادو نے سپریم کورٹ کے کالجیم کے ججوں سے ملاقات کی تھی۔
وکلاء نے اپنی درخواست کا پس منظر دیتے ہوئے کے ویراسوامی کیس میں عدالت عظمیٰ کے 1991 کے رپورٹ شدہ فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ہائی کورٹ کے جج، چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف خلاف سیکشن 154، سی آر پی سی کے تحت کوئی فوجداری مقدمہ تب تک دائر نہیں کیا جاسکتا جب تک اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا سے مشورہ نہیں کیا جاتا ہے۔ فیصلے کے مطابق حکومت کو چیف جسٹس کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ وکلاء نے کہا ہے کہ اسی پس منظر میں انہوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ جسٹس یادو کے خلاف کارروائی کریں۔
یہ بھی پڑھیں: