لندن: دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے تو خطرات درپیش ہیں ہی لیکن تیزی سے سکڑتے ساحل اور ریتیلے ٹیلے بھی ماحول کے توازن کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلے نا صرف ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ کئی سمندری حیات کا قدرتی مسکن ہیں اور ان انواع کی بقا کے لیے نا گزیر ہیں۔ لیکن ساحل کے قریب شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادی، تعمیراتی کام اور سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ساحل اور ریت کے ٹیلے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر سطح سمندر اور شدید موسمی واقعات میں اضافے، شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ساحلی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس حوالے سے نیچر سائنس جنرل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ساحلوں کے قریب تعمیرات اور ریت کے ٹیلوں کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اوسطاَ ساحل کے قریب ترین عمارت یا پکی سڑک صرف 390 میٹر کے فاصلے پر ہے۔
تحقیق کے مطابق جاپان، جنوبی کوریا، لبنان، مصر، ترکی، اٹلی، اسپین اور امریکہ کے ساحل تیزی سے بڑھتے انفرا سٹرکچر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں 2100 تک سطح سمندر میں اضافے سے ساحلوں کے قریب عمارتوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان فاصلہ 23 سے 30 فیصد مزید گھٹ جانے کا امکان ہے۔
اس تٓحقیق کی مصنف اوا ایم لائنسو جو رائل انسٹی ٹیوٹ فار سی ریسرچ سے منسلک ہیں کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی میں سمندر اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ یہ سیلاب کو روکنے کے علاوہ پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سمندری پودوں اور جانوروں کی کئی انواع کا قدرتی مسکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں تقریبا 40 فیصد آبادی ساحلوں سے 100 کلومیٹر کے اندر رہتی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جب کہ انسانی ترقی سے سمندر یا ایکو سسٹم تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں۔
لانسو کا کہنا ہے کہ انسان کا تعمیر کردہ انفراسٹرکچر ساحلی ماحولیاتی نظام کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دستیاب جگہ کو محدود کر رہا ہے۔ ریتیلے ساحلوں پر سمندری حیات کے قدرتی مسکن جگہ کی کمی کے باعث تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ سطح سمندر میں تیزی سے اضافے سے کئی سمندری حیات کو معدومی کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق کا بھیانک ترین پہلو یہ ہے عالمی ریتیلے ساحلوں کے تقریباً 30 فیصد سے زیادہ حصے پر اب انفراسٹرکچر ہے اور محض 100 میٹر حصہ خالی رہ گیا ہے اور نئی تعمیرات اب براہ راست ساحلوں پر ہو رہی ہیں۔
اوا لانسو کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں اب تک ریتیلے ساحلوں کے قریب صرف 16 فیصد علاقوں کو پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا گیا ہے۔ اس شرح کو تیزی سے بڑھانے کے علاوہ ساحلی علاقوں میں تعمیرات اور آبادکاری سے متعلق قوانین نافذ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کراچی کی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ 4 دہائیوں میں کراچی کی ساحلی پٹی پر تیزی سے تعمیرات ہوئی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ گزری کریک کا سمندری راستہ جو 1986 تک 14 مربع کلومیٹر پر محیط تھا اب سکڑ کر محض 11 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق ساحل کے قریب تعمیرات کے جنون سے سمندری ایکو سسٹم اور مقامی افراد کا ذریعہ معاش شدید متاثر ہوا ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابسطہ تھے۔ مگر ساحلی پٹی پر مینگروز کے جنگلات متاثر ہونے سے مچھلیوں کی افزائش گاہیں تباہ ہو گئی ہیں۔ گزری کریک اور ملحقہ علاقے جو کبھی مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے اب وہاں جیلی فش کا راج ہے اور ماہی گیر دیگر پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر رہائشی سکیموں کی تعمیر سے مون سون سیزن میں سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
رائل نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ آف سی ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ ریتیلے ساحلوں کے قریب وہ علاقے جہاں ساحل تیزی سے سکڑ رہے ہیں انھیں "پروٹیکٹڈ ایریا” قرار دے کر وہاں ہر طرح کی تعمیرات پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر علاقوں کے لیے تعمیرات کی حد مقرر کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: