لاہور: کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایّر نے اتوار کو پاکستانی شہریوں کی ستائش کی۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو بھارت کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دیا۔ ان کے اس بیان کی وجہ سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ روزنامہ پاکستان کے مطابق منی شنکر ایّر نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'میرے تجربے میں پاکستانی ایسے لوگ ہیں جو شاید دوسری طرف سے زیادہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہم دوست ہیں تو وہ انتہائی مخلص دوست بن جاتے ہیں اور اگر ہم مخالف ہیں تو وہ انتہائی دشمن بن جاتے ہیں۔
لاہور میں الحمراء میں فیض مہوتسو کے دوسرے دن 'ہجر کی رکھ، وصال کے پھول، ہندوستان-پاکستان کے معاملات' کے عنوان سے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر نے کہا ہے کہ 'وہ ایک ایسے ملک میں گئے جہاں لوگوں کے دل کھلے تھے۔ خوش آمدید کراچی میں قونصل جنرل کے طور پر اپنی تعیناتی کو یاد کرتے ہوئے سابق سفارت کار منی شنکر ایّر نے کہا کہ سب نے ان کا اور ان کی اہلیہ کا خیال رکھا۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں بہت سے واقعات کے بارے میں لکھا ہے، جو پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر ظاہر کرتا ہے جو ہندوستانی عوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔
ڈان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’منی شنکر ایّر نے کہا کہ خیر سگالی کی ضرورت تھی لیکن خیر سگالی کے بجائے، نریندر مودی کی پہلی حکومت کے قیام کے بعد گزشتہ 10 سالوں کے دوران کچھ اس کے برعکس ہوا ہے‘‘۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی عوام یاد رکھیں کہ مودی کو کبھی بھی ایک تہائی سے زیادہ ووٹ نہیں ملے، لیکن ہمارا نظام ایسا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک تہائی ووٹ ہیں تو اس کے پاس دو تہائی نشستیں ہیں''۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ ''وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی موجودہ حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات یت سے انکار کرکے 'سب سے بڑی غلطی' کی ہے''۔
مزید پڑھیں: بھارت - پاکستان نے قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ کیا
مزید پڑھیں: مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا نہایت غلط بات ہے: منی شنکر ائیر
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس رہنما نے کہا کہ ''کانگریس حکومت اور بی جے پی کی حکومت کے دوران اسلام آباد میں پانچ ہندوستانی ہائی کمشنر تھے اور وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہمارے اختلافات کچھ بھی ہوں، ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور یہ ہماری پچھلے دس سالوں میں سب سے بڑی غلطی تھی، ہم میں آپ کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی ہمت ہے لیکن میز پر بیٹھ کر بات کرنے کی ہمت نہیں ہے''۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تاجروں، طلباء اور ماہرین تعلیم کو حکومتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان سے باہر ملتے رہنا چاہیے''۔