سورت: گجرات کی کرائم برانچ پولیس نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما، بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ، ہندو اپدیش رانا کے قتل کی مبینہ سازش کرنے اور اور سدرشن ٹیلی ویژن کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے کو دھمکی دینے دینے کے الزام میں سورت سے ایک عالم دین کو گرفتار کیا ہے۔ سورت کے پولیس کمشنر انوپم سنگھ گہلوت نے ہفتے کے روز دعویٰ کیا کہ ملزم پاکستان اور نیپال کے اپنے آقاؤں کے ساتھ مل کر اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
سورت پولیس کمشنر نے گرفتار ملزم کی شناخت مولانا سہیل ابوبکر تیمول (27) کے طور پر کی، جو ایک دھاگہ فیکٹری میں منیجر کے طور پر کام کرتے تھے اور مسلم بچوں کو اسلامیات کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ اصل میں نندربار، مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں۔ وہ کافی عرصے سے سورت کے کٹھور گاؤں میں رہ رہے تھے، جہاں سے ان کی گرفتاری کی گئی۔
پولیس افسر کے دعوؤں کے مطابق 'وہ پاکستان اور نیپال کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہندو سناتن سنگھ کے قومی صدر اپدیش رانا کو مبینہ طور پر مارنے کے لیے ایک کروڑ روپے کی سپاری دینے اور پاکستان سے ہتھیار خریدنے کی سازش کر رہے تھے۔ ملزم کو 10 دنوں کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
- رانا کے قتل کیلئے ایک کروڑ روپے کی پیشکش کا الزام
پولیس کمشنر انوپم سنگھ گہلوت کے مطابق 'حراست میں لینے کے بعد ہمیں ان کے موبائل فون سے بہت سے قابل اعتراض مواد ملے، جس میں اپدیش رانا کے قتل کے لیے ایک کروڑ روپے کی پیشکش بھی شامل تھی۔ اس کے لیے وہ پاکستان اور نیپال کے لوگوں/نمبروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ 'گرفتار عالم دین اس سال مارچ میں رانا کو دھمکیاں دینے میں بھی ملوث پائے گئے۔ انہوں نے اپنی گروپ کال میں پاکستان اور نیپال کے نمبرز شامل کرکے مخصوص لیڈروں کو ڈرانے کے لیے لاؤس کا ورچوئل نمبر استعمال کیا تھا۔
- ایپ کے ذریعے سازش رچنے کا الزام
انوپم سنگھ گہلوت نے کہا، 'ان کے فون نمبر پر ملنے والی تصاویر اور دیگر تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ (ملزم اور ان کے ساتھی) سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے، سیاسی رہنما نوپور شرما اور حیدرآباد کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو نشانہ بنانے اور دھمکی دینے کے بارے میں ایک محفوظ ایپ پر بات چیت کر رہے تھے۔ اس کے لیے وہ پیسہ اکٹھا کرنے اور ہتھیار خریدنے کا بھی منصوبہ بنا رہے تھے۔
- پولیس نے کملیش تیواری کے قتل سے بھی جوڑا معاملہ
اعلیٰ پولیس افسر نے کہا کہ یہ لوگ بہت بنیاد پرست ہیں اور ہندوتوا لیڈروں کو مارنے کی بات کرتے تھے۔ انہوں نے ہندو سماج پارٹی اتر پردیش کے صدر کملیش تیواری کے قتل پر بھی تبادلہ خیال کیا، جنہیں 18 اکتوبر 2019 کو لکھنؤ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ رانا کو دھمکی دی گئی کہ اسے بھی کملیش تیواری کی طرح قتل کر دیا جائے گا۔ اپدیش رانا سورت میں ایک تنظیم چلاتے ہیں، ان کی تنظیم کے کملیش تیواری کو سال 2019 میں لکھنؤ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اپدیش رانا کو بھی ایکس کیٹیگری کی سکیورٹی دی گئی ہے۔
- انتخابات کے دوران ماحول خراب کرنے کا الزام
کرائم برانچ نے کہا کہ چیٹ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم رانا کو جلد ہی قتل کرنا چاہتے تھے تاکہ عام انتخابات کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کیا جا سکے۔ سورت پولیس یہ جاننے کے لیے دیگر ایجنسیوں کی مدد لے رہی ہے کہ آیا ان کے ذہن میں مزید ٹارگٹ تھے یا نہیں۔
- پاکستان اور نیپال کا مبینہ لنک
کرائم برانچ کے مطابق، ملزم سے ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزم عالم دین نے رابطہ ڈوگر اور شہناز نام کے دو افراد سے رابطہ کیا تھا، جن کے پاس بالترتیب پاکستان اور نیپال کے فون نمبر تھے۔ کرائم برانچ کے مطابق تقریباً ڈیڑھ سال قبل دونوں افراد نے پاکستان اور نیپال کے فون نمبروں پر سوشل میڈیا کے ذریعے ملزمان سے رابطہ کیا تھا۔ 'اس نے یہ دعویٰ کرکے ملزم کو اکسایا کہ ہندوستان میں ہندو تنظیموں نے پیغمبر اسلام کا مذاق اڑایا تھا اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔'
- سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا الزام
کرائم برانچ کے مطابق 'ملزم نے سوشل میڈیا کا استعمال فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے، پوسٹس یا ویڈیوز میں ہندو مذہب کے بارے میں نازیبا تبصرے کرنے کے لیے کیا۔ اس نے جھوٹے الیکٹرانک ریکارڈ بنائے اور غیر ملکی ہینڈلرز سے اسلحہ منگوایا۔'
- کوڈ ورڈ کا مبینہ استعمال
پولیس افسر کا دعویٰ ہے کہ وہ جن لوگوں کو نشانہ بنانے والے تھے ان کے لیے کوڈ ورڈ استعمال کر رہے تھے، جس سورت کے اپدیش کے لیے 'ڈھکن' لفظ تھا
- ان دفعات کے تحت مقدمہ درج
گرفتار ملزم پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153(A) (مذہب، نسل پر شدید توہین یا حملوں میں ملوث ہونا)، 467، 468، اور 471 (دستاویزات یا الیکٹرانک ریکارڈ کی جعلسازی سے متعلق) اور مجرمانہ دفعہ 120 (B) کے تحت سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے میں گرفتار عالم دین مولوی ابو بکر، ان کے اہل خانہ یا وکیل کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات پر ان کا کیا کہنا ہے۔