ETV Bharat / bharat

سال2030 تک 7 ٹریلین ڈالر کی معیشت کی جانب بھارت کا سفر

India Towards $7 trillion economy سال 2030تک سات ٹریلین ڈالر کی معیشت کی جانب بھارت کے سفر اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے، درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے متعلق رادھا رگھورامپترونی کی خصوصی تجزیارتی رپورٹ۔

۱
۱
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 27, 2024, 6:00 AM IST

اقتصادی سروے ہر سال بجٹ اجلاس سے ایک دن پہلے جاری کیا جاتا تھا، لیکن اس سال ووٹ آن اکاؤنٹ بجٹ کی وجہ سے مکمل اقتصادی سروے جولائی 2024 میں مکمل بجٹ سے پہلے ہی جاری کیا جائے گا۔ اقتصادی سروے ایک جامع سالانہ رپورٹ ہے جو ہر سال ماضی کے مالی سال میں بھارتی معیشت کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔

فائنانس منسٹری (وزارت خزانہ) کی جانب سے پیش کیے گئے Review of Indian Economy’’بھارتی معیشت کا جائزہ‘‘ رپورٹ نے گزشتہ 10 برسوں کے بھارتی معیشت پر پالیسی اور مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے پیش گوئیوں کو اجاگر کیا ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ’’بھارتی معیشت کے جائزہ‘‘ کے مطابق بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ اور عالمی چیلنجز کے باوجود بھارتی معیشت ترقی کی رفتار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے کہ بھارتی معیشت اگلے چھ سے سات برسوں کے دوران یعنی 2030 تک 7 ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گی اور مالی سال 2024 میں بھارتی معیشت کا 7 فیصد یا اس سے زیادہ کی شرح سے بڑھنا ممکن ہے۔ تاہم، اس رپورٹ نے بھارتی معیشت کے سامنے آنے والے چار چیلنجز کو بھی بیان کیا ہے، جن میں مصنوعی ذہانتArtificial Intelligence کا سروس سیکٹر کے لیے خطرہ، توانائی کی سلامتی اور معاشی ترقی کے درمیان کشمکش اور ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی شامل ہیں۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ایک تیزی سے مربوط عالمی معیشت کے دور میں، بھارت کی معاشی ترقی کا منظرنامہ عالمی پیش رفتوں کے اثرات اور صرف اس کی ملکی کارکردگی پر منحصر نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی جیو ایکنامک تقسیم اور ہائپر گلوبلائزیشن کی سست روی مزید فرینڈ شورنگ اور آن شورنگ friend shoring and on shoringکا باعث بن سکتی ہے، جو پہلے ہی عالمی تجارت اور عالمی ترقی پر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

بحیرہ احمر کے علاقے میں حالیہ واقعات نے عالمی سپلائی چینز پر انحصار کے بارے میں بھی خدشات کو دوبارہ منظر عام پر لایا ہے، جس نے 2023 میں عالمی تجارت میں مزید سست رفتاری کو بڑھایا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپنائی گئی اور عمل درآمد کی جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور مضبوط ہے۔

حکومت، مصنوعی ذہانت کی آمد جو کہ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے، سے بخوبی واقف ہے۔ کیونکہ اس کا سروس سیکٹر کی ملازمتوں پر ممکنہ طور پر اثر پڑتا ہے۔ یہ بھارت کے لیے خاص دلچسپی کا موضوع ہے کیونکہ سروس سیکٹر کا بھارت کی جی ڈی پی میں 50 فیصد سے زیادہ کا حصہ ہے۔ تاہم ان چیلنجوں کے باوجود بھارت کی جی ڈی پی کی شرح ترقی اسی رفتار سے برقرار رہنے اور مالی سال 2025 کے دوران بھی 7 فیصد یا اس سے زیادہ کی شرح سے بڑھنے کی توقع ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کو دنیا بھر میں پالیسی سازوں کی طرف سے جارحانہ انداز میں حل کیا جا رہا ہے، ترقی پذیر ممالک اپنے کاربن کے اہداف اور اپنی معیشتوں کو بڑھانے کی خواہش کے لیے اسکینر کے تحت آ گئے ہیں۔ نیٹ زیرو ٹارگٹ کے تحت، بھارت 2070 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔

توانائی کی سلامتی اور معاشی ترقی کے درمیان کشمکش اور توانائی کے شعبے میں تبدیلی ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کے - جیو سیاسی، تکنیکی، مالی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے کہ انفرادی ممالک کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسی اقدامات دوسری معیشتوں کو متاثر کرتی ہیں۔ آخر میں حکومت صنعت میں باصلاحیت اور مناسب مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی دستیابی کو بھی معاشی ترقی کے لیے چیلنج کے طور پر دیکھتی ہے۔ اندرون ملک، صنعت کے لیے باصلاحیت اور مناسب مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی دستیابی کو یقینی بنانا، تمام سطحوں پر اسکولوں میں عمر کے لحاظ سے ہنر اور سیکھنے کے نتائج کو بہتر بنانا اور ایک صحت مند اور توانا آبادی آنے والے برسوں میں اہم پالیسی ترجیحات ہیں۔

ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور ہنر مند آبادی معاشی قوت اور پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ بات اب انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے کہ جب بھارت کی 65 فیصد آبادی اس وقت 35 سال سے کم عمر کی ہے اور توقع ہے کہ بھارت کا ڈیموگرافک ڈیویڈن کم از کم 2055 سے 2056 تک برقرار رہے گا اور 2041 کے آس پاس یہ اپنے عروج پر ہوگا، جب 20 سے 59 سال کے درمیان کام کرنے والی عمر کی آبادی کا حصہ 59 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

اس دوران بھارت کے مالیاتی شعبے کی مضبوطی اور حال ہی میں بنیادی ڈھانچے میں کی گئی اصلاحات آنے والے برسوں میں بھارتی معیشت کو 7 فیصد سے زیادہ کی شرح سے ترقی کرنے میں مددگار ثابت ثابت ہوں گی۔ ان اصلاحات نے معاشی لچک پیدا کی ہے جس کی ملک کو مستقبل میں غیر متوقع عالمی خطرات / رسک سے نمٹنے کے لیے ضرورت پڑے گی۔

پبلک سیکٹر میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران کی گئی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، معیشت مستحکم ہے اور بے روزگاری کم شرح اور اعتدال پسند افراط زر، بھارتی معیشت کو بہتر انداز میں بلندیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ عالمی وبا کووڈ کے دوران کیے گئے اقدامات اور تاریخی ویکسینیشن ڈرائیو نے معیشت کو تیز رفتار ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے۔

سال 2014ء سے بنیادی ڈھانچے میں نافذ کی گئی اصلاحات نے بھارتی معیشت کی کلیدی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ گزشتہ عشرے میں بھارت کے فلاحی تصور کو ایک طویل مدتی، موثر اور بااختیار کردار میں نمایاں طور پر تبدیل کیا گیا ہے۔ خواتین کی محنت کش طبقے میں شرکت کی شرح 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو بھارت میں خواتین کی قیادت میں ترقی کی طرف ایک بڑی تبدیلی کی عکاس ہے۔

اس دوران حکومت کی جانب سے تعلیمی شعبے، شعبہ صحت، کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس، لیبر مارکیٹ میں صنفی تفریق کو کم کرنے، حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری پر زور دینے، انفراسٹرکچر کی ترقی، مالیاتی توازن برقرار رکھنے، معیشت کی رسمی حیثیت اور جی ایس ٹی اصلاحات، ادائیگیوں کی ڈیجیٹائزیشن، دیوالیہ سازی کے قوانین میں اصلاحات، وہ چند پالیسیز اور اصلاحات ہیں جنہوں نے بھارتی معیشت کو ترقی کی رفتار برقرار رکھنے میں مدد کی ہیں۔

فروری 2024 - کے آئی ایم ایفIMF ڈیٹا کے مطابق 4,112 بلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ بھارت پانچویں بڑی معیشت ہے۔ جاپان (4,291 بلین ڈالر)، جرمنی (4,730 بلین ڈالر)، چین (18,566 بلین ڈالر) اور امریکہ (27,974 بلین ڈالر) جی ڈی پی کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہیں۔ توقع ہے کہ مالی سال 2024 میں بھارت کی جی ڈی پی 10.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرکے 4.2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

تاہم، 2027 تک تیسری بڑی معیشت بننے اور 5 ٹریلین ڈالر کی شرح تک پہنچنے کے لیے جاپان کو چوتھے اور جرمنی کو تیسرے نمبر پر چھوڑ کر، بھارت کو اوسطاً 9.1 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی کی اس شرح کو ممکن بنانے کے لیے 3 سال کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے شناخت کیے گئے چار چیلنجز کے علاوہ سرمایہ کاری میں اضافہ، پیداوری میں بہتری، صحت اور تعلیم میں بہتری، مزید ملازمتوں کی تخلیق اور صنفی تفریق میں کمی، میکرو اکنامک استحکام برقرار رکھنا، عالمی رجحانات کا انتظام اور حکمرانی میں بہتری لانا یقینی طور پر آنے والے چند برسوں میں بھارتی معیشت کو 7 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنا دے گا۔ اس وقت معیشت ایک اچھے مقام پر ہے اور گزشتہ عشرے کے دوران متعدد چیلنجوں کے باوجود کافی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

اقتصادی سروے ہر سال بجٹ اجلاس سے ایک دن پہلے جاری کیا جاتا تھا، لیکن اس سال ووٹ آن اکاؤنٹ بجٹ کی وجہ سے مکمل اقتصادی سروے جولائی 2024 میں مکمل بجٹ سے پہلے ہی جاری کیا جائے گا۔ اقتصادی سروے ایک جامع سالانہ رپورٹ ہے جو ہر سال ماضی کے مالی سال میں بھارتی معیشت کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔

فائنانس منسٹری (وزارت خزانہ) کی جانب سے پیش کیے گئے Review of Indian Economy’’بھارتی معیشت کا جائزہ‘‘ رپورٹ نے گزشتہ 10 برسوں کے بھارتی معیشت پر پالیسی اور مستقبل کی اقتصادی ترقی کے لیے پیش گوئیوں کو اجاگر کیا ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ’’بھارتی معیشت کے جائزہ‘‘ کے مطابق بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ اور عالمی چیلنجز کے باوجود بھارتی معیشت ترقی کی رفتار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے کہ بھارتی معیشت اگلے چھ سے سات برسوں کے دوران یعنی 2030 تک 7 ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گی اور مالی سال 2024 میں بھارتی معیشت کا 7 فیصد یا اس سے زیادہ کی شرح سے بڑھنا ممکن ہے۔ تاہم، اس رپورٹ نے بھارتی معیشت کے سامنے آنے والے چار چیلنجز کو بھی بیان کیا ہے، جن میں مصنوعی ذہانتArtificial Intelligence کا سروس سیکٹر کے لیے خطرہ، توانائی کی سلامتی اور معاشی ترقی کے درمیان کشمکش اور ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی شامل ہیں۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ایک تیزی سے مربوط عالمی معیشت کے دور میں، بھارت کی معاشی ترقی کا منظرنامہ عالمی پیش رفتوں کے اثرات اور صرف اس کی ملکی کارکردگی پر منحصر نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی جیو ایکنامک تقسیم اور ہائپر گلوبلائزیشن کی سست روی مزید فرینڈ شورنگ اور آن شورنگ friend shoring and on shoringکا باعث بن سکتی ہے، جو پہلے ہی عالمی تجارت اور عالمی ترقی پر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

بحیرہ احمر کے علاقے میں حالیہ واقعات نے عالمی سپلائی چینز پر انحصار کے بارے میں بھی خدشات کو دوبارہ منظر عام پر لایا ہے، جس نے 2023 میں عالمی تجارت میں مزید سست رفتاری کو بڑھایا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپنائی گئی اور عمل درآمد کی جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور مضبوط ہے۔

حکومت، مصنوعی ذہانت کی آمد جو کہ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے، سے بخوبی واقف ہے۔ کیونکہ اس کا سروس سیکٹر کی ملازمتوں پر ممکنہ طور پر اثر پڑتا ہے۔ یہ بھارت کے لیے خاص دلچسپی کا موضوع ہے کیونکہ سروس سیکٹر کا بھارت کی جی ڈی پی میں 50 فیصد سے زیادہ کا حصہ ہے۔ تاہم ان چیلنجوں کے باوجود بھارت کی جی ڈی پی کی شرح ترقی اسی رفتار سے برقرار رہنے اور مالی سال 2025 کے دوران بھی 7 فیصد یا اس سے زیادہ کی شرح سے بڑھنے کی توقع ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کو دنیا بھر میں پالیسی سازوں کی طرف سے جارحانہ انداز میں حل کیا جا رہا ہے، ترقی پذیر ممالک اپنے کاربن کے اہداف اور اپنی معیشتوں کو بڑھانے کی خواہش کے لیے اسکینر کے تحت آ گئے ہیں۔ نیٹ زیرو ٹارگٹ کے تحت، بھارت 2070 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔

توانائی کی سلامتی اور معاشی ترقی کے درمیان کشمکش اور توانائی کے شعبے میں تبدیلی ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کے - جیو سیاسی، تکنیکی، مالی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے کہ انفرادی ممالک کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسی اقدامات دوسری معیشتوں کو متاثر کرتی ہیں۔ آخر میں حکومت صنعت میں باصلاحیت اور مناسب مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی دستیابی کو بھی معاشی ترقی کے لیے چیلنج کے طور پر دیکھتی ہے۔ اندرون ملک، صنعت کے لیے باصلاحیت اور مناسب مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی دستیابی کو یقینی بنانا، تمام سطحوں پر اسکولوں میں عمر کے لحاظ سے ہنر اور سیکھنے کے نتائج کو بہتر بنانا اور ایک صحت مند اور توانا آبادی آنے والے برسوں میں اہم پالیسی ترجیحات ہیں۔

ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور ہنر مند آبادی معاشی قوت اور پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ بات اب انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے کہ جب بھارت کی 65 فیصد آبادی اس وقت 35 سال سے کم عمر کی ہے اور توقع ہے کہ بھارت کا ڈیموگرافک ڈیویڈن کم از کم 2055 سے 2056 تک برقرار رہے گا اور 2041 کے آس پاس یہ اپنے عروج پر ہوگا، جب 20 سے 59 سال کے درمیان کام کرنے والی عمر کی آبادی کا حصہ 59 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

اس دوران بھارت کے مالیاتی شعبے کی مضبوطی اور حال ہی میں بنیادی ڈھانچے میں کی گئی اصلاحات آنے والے برسوں میں بھارتی معیشت کو 7 فیصد سے زیادہ کی شرح سے ترقی کرنے میں مددگار ثابت ثابت ہوں گی۔ ان اصلاحات نے معاشی لچک پیدا کی ہے جس کی ملک کو مستقبل میں غیر متوقع عالمی خطرات / رسک سے نمٹنے کے لیے ضرورت پڑے گی۔

پبلک سیکٹر میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران کی گئی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، معیشت مستحکم ہے اور بے روزگاری کم شرح اور اعتدال پسند افراط زر، بھارتی معیشت کو بہتر انداز میں بلندیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ عالمی وبا کووڈ کے دوران کیے گئے اقدامات اور تاریخی ویکسینیشن ڈرائیو نے معیشت کو تیز رفتار ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے۔

سال 2014ء سے بنیادی ڈھانچے میں نافذ کی گئی اصلاحات نے بھارتی معیشت کی کلیدی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ گزشتہ عشرے میں بھارت کے فلاحی تصور کو ایک طویل مدتی، موثر اور بااختیار کردار میں نمایاں طور پر تبدیل کیا گیا ہے۔ خواتین کی محنت کش طبقے میں شرکت کی شرح 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو بھارت میں خواتین کی قیادت میں ترقی کی طرف ایک بڑی تبدیلی کی عکاس ہے۔

اس دوران حکومت کی جانب سے تعلیمی شعبے، شعبہ صحت، کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس، لیبر مارکیٹ میں صنفی تفریق کو کم کرنے، حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری پر زور دینے، انفراسٹرکچر کی ترقی، مالیاتی توازن برقرار رکھنے، معیشت کی رسمی حیثیت اور جی ایس ٹی اصلاحات، ادائیگیوں کی ڈیجیٹائزیشن، دیوالیہ سازی کے قوانین میں اصلاحات، وہ چند پالیسیز اور اصلاحات ہیں جنہوں نے بھارتی معیشت کو ترقی کی رفتار برقرار رکھنے میں مدد کی ہیں۔

فروری 2024 - کے آئی ایم ایفIMF ڈیٹا کے مطابق 4,112 بلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ بھارت پانچویں بڑی معیشت ہے۔ جاپان (4,291 بلین ڈالر)، جرمنی (4,730 بلین ڈالر)، چین (18,566 بلین ڈالر) اور امریکہ (27,974 بلین ڈالر) جی ڈی پی کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہیں۔ توقع ہے کہ مالی سال 2024 میں بھارت کی جی ڈی پی 10.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرکے 4.2 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

تاہم، 2027 تک تیسری بڑی معیشت بننے اور 5 ٹریلین ڈالر کی شرح تک پہنچنے کے لیے جاپان کو چوتھے اور جرمنی کو تیسرے نمبر پر چھوڑ کر، بھارت کو اوسطاً 9.1 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی کی اس شرح کو ممکن بنانے کے لیے 3 سال کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے شناخت کیے گئے چار چیلنجز کے علاوہ سرمایہ کاری میں اضافہ، پیداوری میں بہتری، صحت اور تعلیم میں بہتری، مزید ملازمتوں کی تخلیق اور صنفی تفریق میں کمی، میکرو اکنامک استحکام برقرار رکھنا، عالمی رجحانات کا انتظام اور حکمرانی میں بہتری لانا یقینی طور پر آنے والے چند برسوں میں بھارتی معیشت کو 7 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنا دے گا۔ اس وقت معیشت ایک اچھے مقام پر ہے اور گزشتہ عشرے کے دوران متعدد چیلنجوں کے باوجود کافی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.