ETV Bharat / bharat

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں 62 فیصد کا اضافہ: آئی ایچ ایل کی رپورٹ

2023 میں، بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بناکر کیے گئے 668 دستاویزی نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کو انڈیا ہیٹ لیب نے اپنی رپورٹ میں پیش کیا ہے۔ سات اکتوبر سے جاری غزہ جنگ کے دوران بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بیان دیئے گئے ہیں۔ انڈیا ہیٹ لیب واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک گروپ ہے جو بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو دستاویز کرتا ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 27, 2024, 12:58 PM IST

واشنگٹن: انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) کی 'ہیٹ اسپیچ ایونٹس ان انڈیا' کے عنوان سے شائع رپورٹ میں بھارت میں 2023 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے نصف میں مسلم مخالف تقاریر کے 255 واقعات ہوئے اور سال کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد بڑھ کر 413 ہو گئی، جو کہ 62 فیصد اضافہ ہے۔

انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 75 فیصد واقعات جس میں 498 تقاریر شامل ہیں جو بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔ ان میں دہلی جیسے مرکز کے زیر انتظام علاقے بھی شامل ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 36 فیصد یعنی 239 واقعات میں مسلمانوں کے خلاف براہ راست تشدد کی کال شامل تھی۔ 63 فیصد یعنی 420 واقعات میں سازشی نظریات، بنیادی طور پر لو جہاد، اراضی جہاد، حلال جہاد اور آبادی جہاد کے حوالے شامل تھے۔ تقریباً 25 فیصد یعنی 169 واقعات ایسے ہیں جس میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے پر زور دینے والی تقریریں شامل ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات مہاراشٹر، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست سے نومبر کے عرصے میں راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے دوران نفرت انگیز تقریر کے واقعات عروج پر تھے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے معاملوں میں جن ریاستوں کو رپورٹ میں ٹاپ 10 میں شامل کیا گیا ہے ان میں مہاراشٹر 118 ، اتر پردیش 104، مدھیہ پردیش 65، راجستھان 64، ہریانہ 48، اتراکھنڈ 41، کرناٹک 40، گجرات 31، چھتیس گڑھ 21، اور بہار 21 نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بھی بی جے پی لیڈر ہی ملوث تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں صرف 10.6 فیصد واقعات میں بی جے پی لیڈر شامل تھے، جب کہ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں یہ تعداد 27.6 فیصد تک بڑھ گئی۔

جہاں تک اس طرح کے نفرت انگیز تقاریر کے پیچھے تنظیموں کا تعلق ہے، دستاویزی واقعات میں سے 32 فیصد یعنی 126 پروگرام وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے منعقد کیے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی خود 50 نفرت انگیز تقاریر کے تقریبات کے انعقاد کے لیے ذمہ دار تھی۔ جس میں زیادہ تر اکثر انتخابی ریلیوں کا انعقاد شامل ہے۔ مجموعی طور پر، آر ایس ایس سے وابستہ تنظیمیں "307 واقعات کے لیے ذمہ دار تھیں، جو کہ 2023 میں نفرت انگیز تقریر کے تمام واقعات میں سے تقریباً 46 فیصد ہیں ۔ رپورٹ میں "گائے کے تحفظ اور وقف تنظیموں کی مخالفت میں گؤ رکشا دل باقاعدگی سے نفرت انگیز تقاریر میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو "مسلم مخالف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ 7 اکتوبر سے 31 دسمبر کے درمیان منعقد ہونے والے 193 نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں سے، 41 ( تقریباً 21 فیصد) نے تقاریر میں غزہ جنگ کا استعمال "ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف خوف اور دشمنی کو ہوا دینے کے لیے" کیا، جس میں "دائیں بازو کے رہنما اس بات پر زور دیتے دکھائی دیئے کہ مسلمان فطری طور پر متشدد ہیں اور اس لیے ہندوؤں کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ "

یہ بھی پڑھیں:



واشنگٹن: انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) کی 'ہیٹ اسپیچ ایونٹس ان انڈیا' کے عنوان سے شائع رپورٹ میں بھارت میں 2023 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے نصف میں مسلم مخالف تقاریر کے 255 واقعات ہوئے اور سال کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد بڑھ کر 413 ہو گئی، جو کہ 62 فیصد اضافہ ہے۔

انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 75 فیصد واقعات جس میں 498 تقاریر شامل ہیں جو بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔ ان میں دہلی جیسے مرکز کے زیر انتظام علاقے بھی شامل ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 36 فیصد یعنی 239 واقعات میں مسلمانوں کے خلاف براہ راست تشدد کی کال شامل تھی۔ 63 فیصد یعنی 420 واقعات میں سازشی نظریات، بنیادی طور پر لو جہاد، اراضی جہاد، حلال جہاد اور آبادی جہاد کے حوالے شامل تھے۔ تقریباً 25 فیصد یعنی 169 واقعات ایسے ہیں جس میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے پر زور دینے والی تقریریں شامل ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات مہاراشٹر، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست سے نومبر کے عرصے میں راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے دوران نفرت انگیز تقریر کے واقعات عروج پر تھے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے معاملوں میں جن ریاستوں کو رپورٹ میں ٹاپ 10 میں شامل کیا گیا ہے ان میں مہاراشٹر 118 ، اتر پردیش 104، مدھیہ پردیش 65، راجستھان 64، ہریانہ 48، اتراکھنڈ 41، کرناٹک 40، گجرات 31، چھتیس گڑھ 21، اور بہار 21 نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بھی بی جے پی لیڈر ہی ملوث تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں صرف 10.6 فیصد واقعات میں بی جے پی لیڈر شامل تھے، جب کہ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں یہ تعداد 27.6 فیصد تک بڑھ گئی۔

جہاں تک اس طرح کے نفرت انگیز تقاریر کے پیچھے تنظیموں کا تعلق ہے، دستاویزی واقعات میں سے 32 فیصد یعنی 126 پروگرام وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے منعقد کیے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی خود 50 نفرت انگیز تقاریر کے تقریبات کے انعقاد کے لیے ذمہ دار تھی۔ جس میں زیادہ تر اکثر انتخابی ریلیوں کا انعقاد شامل ہے۔ مجموعی طور پر، آر ایس ایس سے وابستہ تنظیمیں "307 واقعات کے لیے ذمہ دار تھیں، جو کہ 2023 میں نفرت انگیز تقریر کے تمام واقعات میں سے تقریباً 46 فیصد ہیں ۔ رپورٹ میں "گائے کے تحفظ اور وقف تنظیموں کی مخالفت میں گؤ رکشا دل باقاعدگی سے نفرت انگیز تقاریر میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو "مسلم مخالف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ 7 اکتوبر سے 31 دسمبر کے درمیان منعقد ہونے والے 193 نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں سے، 41 ( تقریباً 21 فیصد) نے تقاریر میں غزہ جنگ کا استعمال "ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف خوف اور دشمنی کو ہوا دینے کے لیے" کیا، جس میں "دائیں بازو کے رہنما اس بات پر زور دیتے دکھائی دیئے کہ مسلمان فطری طور پر متشدد ہیں اور اس لیے ہندوؤں کو مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ "

یہ بھی پڑھیں:



ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.