ETV Bharat / bharat

بابر سے مودی تک: بابری مسجد سے رام مندر تک کی ٹائم لائن

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 21, 2024, 10:51 PM IST

Updated : Jan 23, 2024, 1:51 PM IST

صدیوں کے تلخ تنازعات اور طویل قانونی چارہ جوئی کے بعد آج وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں سے ایودھیا میں نو تعمیر شدہ رام مندر کا افتتاح کیا جائے گا۔ 1528 میں جب ایودھیا میں شہنشاہ بابر کے ایک جرنیل نے بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ ای ٹی وی بھارت ان تاریخی واقعات کی ٹائم لائن کو سامنے لا رہا ہے جو پیر کے رام مندر کے افتتاح تک لے جاتی ہے۔

From Babar To Modi: Timeline Of Ram Mandir
بابر سے مودی تک: بابری مسجد سے رام مندر تک کی ٹائم لائن

حیدرآباد: اتر پردیش کے ایودھیا میں نو تعمیر شدہ رام مندر کا افتتاح آج 22 جنوری کو کیا جارہا ہے۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے اور رام للا کی جائے پیدائش سے مندر کی تعمیر تک تمام تاریخ میں بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وہ سال 1526 تھا جب بابر نے بھارت پر حملہ کیا اور پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودی کو شکست دی جس سے مغل سلطنت کا آغاز ہوا۔

اس کے ایک جرنیل نے شمال مشرقی بھارت کی فتح کا آغاز اس وقت کیا جب اس نے 1528 میں ایودھیا میں ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کی اور بابر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کا نام بابری مسجد رکھا۔ اس مسجد میں ہندوؤں کے لیے مسجد کے باہر لیکن اس کے احاطے کے اندر عبادت کرنے کا بھی انتظام کیا تھا۔

یہاں ہم تلخ تنازعات اور طویل قانونی چارہ جوئی کے واقعات کی تاریخ پیش کر رہے ہیں جو پیر (22 جنوری، 2024) کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ایودھیا رام مندر کے افتتاح پر اختتام کو پہنچ جائے گی۔

  • 1528: بابر نے یہاں ایک مسجد کی تعمیر کرائی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا۔
  • 1853: ہندوؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ مسجد رام کے مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ پہلا تشدد اس مسئلے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہوا تھا۔
  • 1859: برطانوی حکومت نے متنازع زمین کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ الگ عبادت کے لئے اجازت دے دی اور ایک خاردار کھڑا کر دیا۔
  • 1885: مقدمہ پہلی بار عدالت میں پہنچا۔ مہنت راگھوبر داس نے بابری مسجد سے متصل رام مندر بنانے کی اجازت کے لیے فیض آباد عدالت میں اپیل دائر کی۔
  • 1959: نرموہی اکھاڑے نے متنازعہ اراضی سے متعلق ایک ٹرانسفر کی عرضی عدالت میں داخل کی۔
  • 1961: میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
  • 23 دسمبر 1949: مبینہ طور پر 50 کے قریب ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر باقاعدگی سے پوجا شروع کی، مسلمانوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔
  • 16 جنوری 1950: گوپال سنگھ وشاراد نے فیض آباد عدالت میں رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت کے لیے اپیل دائر کی۔
  • 5 دسمبر 1950: مہنت پرمہنس رامچندر داس نے بابری مسجد میں ہندوؤں کی پوجا جاری رکھنے اور رام کی مورتی کو رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ اس مسجد کو 'دھانچا' نام دیا گیا۔
  • 17 دسمبر 1959: نرموہی اکھاڑا نے متنازع مقام کو منتقل کرنے کا مقدمہ دائر کیا۔
  • 18 دسمبر 1961: اترپردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پر ملکیت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔
  • 1984: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور رام جنم استھان کو خودمختار بنانے اور ایک بہت بڑا مندر بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
  • یکم فروری 1986: فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے متنازع جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تالے دوبارہ کھول دئے گئے۔ مشتعل مسلمانوں نے احتجاج میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔
  • جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مندر کی نئی تحریک شروع کرتے ہوئے وی ایچ پی کو باضابطہ مدد دینا شروع کردیا۔
  • یکم جولائی 1989: لارڈ راما للا وراجمان کے نام پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔
  • 9 نومبر 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔
  • 25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔
  • نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
  • اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
  • 6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی تاہم اس وقت وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔
  • 16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
  • 1994: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
  • 4 مئی 2001: خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
  • جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔
  • اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔
  • 5 مارچ 2003: الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
  • اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں اور اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
  • ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔
  • جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔
  • 26 جولائی 2010: معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
  • 28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔
  • 30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔
  • 9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
  • جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔
  • 21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔
  • 19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔
  • 16 نومبر 2017: ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
  • فروری 2018: باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے اپیل کو مسترد کردیا۔
  • 27 ستمبر 2018: ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
  • 29 اکتوبر 2018: سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
  • 8 مارچ 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لیے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
  • اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
  • 16 اکتوبر 2019: سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی: 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
  • 9 نومبر 2019: سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔
  • اگست 2019: مرکزی حکومت کی جانب سے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کیا گیا۔
  • 24 فروری 2020: اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے ایودھیا کی سوہاوال تحصیل کے دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے دی گئی پانچ ایکڑ زمین کو قبول کر لیا۔
  • 5 اگست 2020: وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں مجوزہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ مندر چھ ماہ یا ایک سال میں تیار ہو جائے گا۔
  • 25 اکتوبر 2023: رام جنم بھومی ٹرسٹ نے پی ایم مودی کو رام مندر کے افتتاح کے لیے مدعو کیا۔
  • 22 جنوری 2024: رام مندر کا افتتاح

حیدرآباد: اتر پردیش کے ایودھیا میں نو تعمیر شدہ رام مندر کا افتتاح آج 22 جنوری کو کیا جارہا ہے۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے اور رام للا کی جائے پیدائش سے مندر کی تعمیر تک تمام تاریخ میں بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وہ سال 1526 تھا جب بابر نے بھارت پر حملہ کیا اور پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودی کو شکست دی جس سے مغل سلطنت کا آغاز ہوا۔

اس کے ایک جرنیل نے شمال مشرقی بھارت کی فتح کا آغاز اس وقت کیا جب اس نے 1528 میں ایودھیا میں ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کی اور بابر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کا نام بابری مسجد رکھا۔ اس مسجد میں ہندوؤں کے لیے مسجد کے باہر لیکن اس کے احاطے کے اندر عبادت کرنے کا بھی انتظام کیا تھا۔

یہاں ہم تلخ تنازعات اور طویل قانونی چارہ جوئی کے واقعات کی تاریخ پیش کر رہے ہیں جو پیر (22 جنوری، 2024) کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ایودھیا رام مندر کے افتتاح پر اختتام کو پہنچ جائے گی۔

  • 1528: بابر نے یہاں ایک مسجد کی تعمیر کرائی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا۔
  • 1853: ہندوؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ مسجد رام کے مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ پہلا تشدد اس مسئلے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہوا تھا۔
  • 1859: برطانوی حکومت نے متنازع زمین کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ الگ عبادت کے لئے اجازت دے دی اور ایک خاردار کھڑا کر دیا۔
  • 1885: مقدمہ پہلی بار عدالت میں پہنچا۔ مہنت راگھوبر داس نے بابری مسجد سے متصل رام مندر بنانے کی اجازت کے لیے فیض آباد عدالت میں اپیل دائر کی۔
  • 1959: نرموہی اکھاڑے نے متنازعہ اراضی سے متعلق ایک ٹرانسفر کی عرضی عدالت میں داخل کی۔
  • 1961: میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
  • 23 دسمبر 1949: مبینہ طور پر 50 کے قریب ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر باقاعدگی سے پوجا شروع کی، مسلمانوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔
  • 16 جنوری 1950: گوپال سنگھ وشاراد نے فیض آباد عدالت میں رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت کے لیے اپیل دائر کی۔
  • 5 دسمبر 1950: مہنت پرمہنس رامچندر داس نے بابری مسجد میں ہندوؤں کی پوجا جاری رکھنے اور رام کی مورتی کو رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ اس مسجد کو 'دھانچا' نام دیا گیا۔
  • 17 دسمبر 1959: نرموہی اکھاڑا نے متنازع مقام کو منتقل کرنے کا مقدمہ دائر کیا۔
  • 18 دسمبر 1961: اترپردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پر ملکیت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔
  • 1984: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور رام جنم استھان کو خودمختار بنانے اور ایک بہت بڑا مندر بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
  • یکم فروری 1986: فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے متنازع جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تالے دوبارہ کھول دئے گئے۔ مشتعل مسلمانوں نے احتجاج میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔
  • جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مندر کی نئی تحریک شروع کرتے ہوئے وی ایچ پی کو باضابطہ مدد دینا شروع کردیا۔
  • یکم جولائی 1989: لارڈ راما للا وراجمان کے نام پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔
  • 9 نومبر 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔
  • 25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔
  • نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
  • اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
  • 6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی تاہم اس وقت وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔
  • 16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
  • 1994: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
  • 4 مئی 2001: خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
  • جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔
  • اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔
  • 5 مارچ 2003: الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
  • اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں اور اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
  • ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔
  • جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔
  • 26 جولائی 2010: معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
  • 28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔
  • 30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔
  • 9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
  • جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔
  • 21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔
  • 19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔
  • 16 نومبر 2017: ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
  • فروری 2018: باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے اپیل کو مسترد کردیا۔
  • 27 ستمبر 2018: ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
  • 29 اکتوبر 2018: سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
  • 8 مارچ 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لیے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
  • اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
  • 16 اکتوبر 2019: سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی: 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
  • 9 نومبر 2019: سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔
  • اگست 2019: مرکزی حکومت کی جانب سے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کیا گیا۔
  • 24 فروری 2020: اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے ایودھیا کی سوہاوال تحصیل کے دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے دی گئی پانچ ایکڑ زمین کو قبول کر لیا۔
  • 5 اگست 2020: وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں مجوزہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ مندر چھ ماہ یا ایک سال میں تیار ہو جائے گا۔
  • 25 اکتوبر 2023: رام جنم بھومی ٹرسٹ نے پی ایم مودی کو رام مندر کے افتتاح کے لیے مدعو کیا۔
  • 22 جنوری 2024: رام مندر کا افتتاح
Last Updated : Jan 23, 2024, 1:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.