ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: 'آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ'، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ - Study of Quran

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 11, 2024, 7:36 AM IST

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی مزید پانچ آیتوں (186-190) کا بیان القرآن، تفہیم القرآن اور کنز الایمان کے تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔ INTERPRETATION OF QURAN

قرآن کا پیغام
قرآن کا پیغام (Photo: ETV Bharat)
  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ میری طرف سے فرمادیجیے) میں قریب ہی ہوں ( اور باستثنا نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی جبکہ وہ میرے حضور میں درخواست دے سو ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو قبول کیا کریں اور مجھ پر یقین رکھیں امید ہے کہ وہ لوگ رشد (و فلاح) حاصل کرسکیں گے۔(1)

1- 1 ۔ یہ جو فرمایا کہ میں قریب ہوں تو جیسے حق تعالیٰ کی ذات کی حقیقت بیچون و بیجگوں ہونے کی وجہ سے ادراک نہیں کی جاسکتی اسی طرح ان کی صفات کی حقیقت بھی معلوم نہیں ہو سکتی لہذا ایسے مباحث میں زیادہ تفتیش جائز نہیں اجمالا اتنا سمجھ لیں کہ جیسی ان کی ذات ہے ان کی شان کے مناسب ان کا قرب بھی ہے۔

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)

ترجمہ: تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا (2) کیونکہ وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو۔ خدا تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم خیانت (کرکے گناہ میں اپنے کو مبتلا) کررہے تھے (مگر) خیر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی تم سے گناہ کو دھودیا۔ سو اب ان سے ملو ملاؤ۔ اور جو (قانون اجازت) تمہارے لیے تجویز کردیا ہے (بلاتکلف) اس کا سامان کرو اور کھاؤ اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفید خط (کہ عبارت ہے نور) صبح (صادق) کا متمیز ہوجاوے سیاہ خط سے (3) پھر (صبح صادق سے) رات تک روزہ کو پورا کیا کرو۔ اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی مت ملنے دو جس زمانہ میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو مسجدوں میں (4) یہ خداوندی ضابطے ہیں سو ان (سے نکلنے) کے نزدیک بھی مت ہونا اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے ( اور) احکام (بھی) لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہو کر خلاف کرنے سے) پرہیز رکھیں۔

2 - شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ رات کو ایک دفعہ نیند آجانے سے آنکھ کھلنے کے بعد کھانا پینا اور بی بی کے پاس جانا حرام ہو جاتا تھا۔ بعض صحابہ سے غلبہ میں اس حکم کے انتقال میں کوتاہی ہو گئی پھر نادم ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اطلاع کی ان کی ندامت اور توبہ پر حق تعالی نے رحمت فرمائی اور اس حکم کو منسوخ کر دیا۔

3 - مراد متمیز ہونے سے یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہو جائے۔

4 - حالت اعتکاف میں بی بی کے ساتھ صحبت اور اسی طرح بوس و کنار سب حرام ہے۔ اعتکاف صرف ایسی مسجد میں جائز ہے جس میں پانچوں وقت جماعت سے نماز کا انتظام ہو۔ جو اعتکاف رمضان میں نہ ہو اس میں بھی روزہ شرط ہے اعتکاف والے کو مسجد سے کسی وقت باہر نکلنا درست نہیں البتہ جو کام بہت ہی ضروری ہو جیسے پیشاب پاخانہ یا کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو گھر سے کھانا لا سکتا ہے یا جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جانا بس ایسی ضرورت کے لیے باہر جانا درست ہے لیکن گھر میں یا رستہ میں ٹھہرنا درست نہیں اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو جو جگہ اس کی نماز پڑھنے کی مقرر ہے اسی جگہ اعتکاف بھی درست ہے۔

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)

ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (طور پر) مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی) ظلم کے کھا جاؤ اور تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم (بھی) ہو۔

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)

ترجمہ: آپ سے چاندوں کی حالت کی تحقیقات کرتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ وہ چاند آلہٴ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے (اختیاری معاملات مثل عدة مطالبہٴ حقوق) کے لیے اور (غیر اختیاری عبادات مثل) حج (روزہ زکوٰة وغیرہ) کے لیے (5) اور اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو ہاں لیکن فضیلت یہ ہے کہ کوئی شخص (حرام چیزوں سے) بچے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ (6)۔ اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔

5 - شریعت نے بالاصالہ قمری حساب پر احکام و عبادات کا مدار رکھا ہے کہ سب کا اجتماع و اتفاق ان امور میں سہولت سے ممکن ہو پھر بعض احکام میں تو اس حساب پر لازم کر دیا ہے کہ ان میں دوسرے حساب پر مدار رکھنا جائز ہی نہیں جیسے حج ورزہ رمضان، وعيدين وزكوة وعدت طلاق وامثالہا اور بعض میں گو اختیار دیا ہے جیسے کوئی چیز خریدی اور وعدہ ٹھہرا کہ اس وقت سے ایک سال شمسی گزرنے پر زر شمن بے باق کریں گے اس میں شرع نے مجبور نہیں کیا کہ سال قمری ہی پر مطالبہ کا حق ہو جاوے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ابتداء قمری پر مدار رکھا جاوے تو عام طور پر سہولت اس میں ہے۔

6 ۔ بعض لوگ قبل اسلام کے حالت احرام میں حج میں اگر کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تو دروازے سے جانا ممنوع سمجھتے اس لیے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے اللہ تعالی اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو اس سے ایک بڑے کام کی بات معلوم ہوئی کہ جو شے شرعا مباح ہو اس کو طاعت و عبادت اعتقاد کرلینا اور اسی طرح اس کو معصیت اور محل ملامت اعتقاد کرلینا شرعا مذموم ہے اور بدعت میں داخل ہے۔

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)

ترجمہ: اور (بےتکلف) تم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو (نقض عہد کرکے) تمہارے ساتھ لڑنے لگیں اور (ازخود) حد (معاہدہ) سے مت نکلو واقعی اللہ تعالیٰ حد (قانون شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (188) یہ بات تم اُنہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔ 189

188- یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کر سکتے ہو، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دور 7 ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے، مجھ سے عرض معروض کر سکتا ہے، حتی کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الہ اور رب قرار دے رکھا ہے، ان کے پاس تو تمہیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کر سکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں رواے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجاؤ۔

189- یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقت حال معلوم کر کے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس صحیح رویے کی طرف آجائیں، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)

ترجمہ: تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے۔ (190) اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو۔ (191) نیز راتوں کو کھاؤ (192) پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ (193) تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ (194) اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ (195) یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ (196) اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے۔

190- یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے۔

191- ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر ناجائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔

192- اس بارے میں بھی لوگ ابتداء غلط فہمی میں تھے۔ کسی کا خیال تھا کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ سکتا۔ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سمجھ رکھے تھے یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے۔ اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کردی گئی اور غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبي الى السلام نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلوع فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے۔

193- اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دنیا میں ہر وقت ہر مرتبہ تمدن کے لوگ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے ان آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریق توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قطبین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علم جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن، جس معنی میں ہم خط استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دور ہو یا دن کا بہر حال صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی افق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیین اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں۔

194- رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروب آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصے میں افق کے مشرقی کنارے پر سفیدہ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار، دونوں کے معاملے شدت احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ ادھر ادھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوع فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی ہو تو وہ جلدی سے اٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور لی سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروب آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی السلام سورج ڈوبتے ہی بلال کو آواز دیتے تھے کہ لاؤ ہمارا شربت۔ بلال عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اٹھنے لگے، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

195- معتلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کر دے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے۔

196- یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے، جس میں نبی صلی علیہ السلام نے فرمایا کہ لکل ملک حمیٰ و ان حمى الله محار مه، فمن رتع حول الحمى، يوشك ان يقع فيه عربی زبان میں حمیٰ اس چرا گاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور صلی اللہ فرماتے ہیں کہ ” ہر بادشاہ کی ایک حملی ہوتی ہے اور اللہ کی حمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حمل کے اندر داخل ہو جائے۔ “ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی روح سے ناواقف ہیں، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اس بار یک خط امتیاز ہی پر گھومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)

ترجمہ: اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (197)

197- اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جاؤ گے۔ عند اللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی یا ہم نے فرمایا انما انا بشر و انتم تختصمون الى و لعل بعضكم يكون الحن بحجته من بعض، فا قضى له على نحو ما اسمع منہ فمن قضيت له بشيء من حق اخيه، فانما اقضى له قطعة من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)

ترجمہ: لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں۔ (198) نیز ان سے کہو یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ (199)

198- چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہل عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دوسری جاہل قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں ان میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی الی السلام سے دریافت کی گئی۔ جواب اللہ تعالی نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس میں کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے، جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ عرب کی مذہبی، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ ان مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔

199- منجملہ ان توہم پرستانہ رسموں کے، جو عرب میں رائج تھیں، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے، بلکہ پیچھے سے دیوار کود کر یا دیوار میں کھڑ کی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے۔ ان بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)

ترجمہ: اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، (200) مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (201)

200- یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں، اور اس بنا پر تمہارے دشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں، ان سے جنگ کرو۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

201- یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال حد سے گزرنے “ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اسی حد تک کیا جائے، جتنی اس کی ضرورت ہو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں،

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)
ترجمہ: روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہو جائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے (پو پھٹ کر) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیز گاری ملے،

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاؤ جان بوجھ کر،

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)
ترجمہ: تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں تم فرما دو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ گھروں میں پچھیت (پچھلی دیوار) توڑ کر آ ؤ ہاں بھلائی تو پرہیز گاری ہے ، اور گھروں میں دروازوں سے آ ؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: وصیت تبدیل کرنا سخت گناہ مگر حق تلفی کی روک تھام کے لیے اصلاح جائز

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ میری طرف سے فرمادیجیے) میں قریب ہی ہوں ( اور باستثنا نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی جبکہ وہ میرے حضور میں درخواست دے سو ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو قبول کیا کریں اور مجھ پر یقین رکھیں امید ہے کہ وہ لوگ رشد (و فلاح) حاصل کرسکیں گے۔(1)

1- 1 ۔ یہ جو فرمایا کہ میں قریب ہوں تو جیسے حق تعالیٰ کی ذات کی حقیقت بیچون و بیجگوں ہونے کی وجہ سے ادراک نہیں کی جاسکتی اسی طرح ان کی صفات کی حقیقت بھی معلوم نہیں ہو سکتی لہذا ایسے مباحث میں زیادہ تفتیش جائز نہیں اجمالا اتنا سمجھ لیں کہ جیسی ان کی ذات ہے ان کی شان کے مناسب ان کا قرب بھی ہے۔

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)

ترجمہ: تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا (2) کیونکہ وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو۔ خدا تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم خیانت (کرکے گناہ میں اپنے کو مبتلا) کررہے تھے (مگر) خیر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی تم سے گناہ کو دھودیا۔ سو اب ان سے ملو ملاؤ۔ اور جو (قانون اجازت) تمہارے لیے تجویز کردیا ہے (بلاتکلف) اس کا سامان کرو اور کھاؤ اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفید خط (کہ عبارت ہے نور) صبح (صادق) کا متمیز ہوجاوے سیاہ خط سے (3) پھر (صبح صادق سے) رات تک روزہ کو پورا کیا کرو۔ اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی مت ملنے دو جس زمانہ میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو مسجدوں میں (4) یہ خداوندی ضابطے ہیں سو ان (سے نکلنے) کے نزدیک بھی مت ہونا اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے ( اور) احکام (بھی) لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہو کر خلاف کرنے سے) پرہیز رکھیں۔

2 - شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ رات کو ایک دفعہ نیند آجانے سے آنکھ کھلنے کے بعد کھانا پینا اور بی بی کے پاس جانا حرام ہو جاتا تھا۔ بعض صحابہ سے غلبہ میں اس حکم کے انتقال میں کوتاہی ہو گئی پھر نادم ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اطلاع کی ان کی ندامت اور توبہ پر حق تعالی نے رحمت فرمائی اور اس حکم کو منسوخ کر دیا۔

3 - مراد متمیز ہونے سے یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہو جائے۔

4 - حالت اعتکاف میں بی بی کے ساتھ صحبت اور اسی طرح بوس و کنار سب حرام ہے۔ اعتکاف صرف ایسی مسجد میں جائز ہے جس میں پانچوں وقت جماعت سے نماز کا انتظام ہو۔ جو اعتکاف رمضان میں نہ ہو اس میں بھی روزہ شرط ہے اعتکاف والے کو مسجد سے کسی وقت باہر نکلنا درست نہیں البتہ جو کام بہت ہی ضروری ہو جیسے پیشاب پاخانہ یا کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو گھر سے کھانا لا سکتا ہے یا جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جانا بس ایسی ضرورت کے لیے باہر جانا درست ہے لیکن گھر میں یا رستہ میں ٹھہرنا درست نہیں اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو جو جگہ اس کی نماز پڑھنے کی مقرر ہے اسی جگہ اعتکاف بھی درست ہے۔

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)

ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (طور پر) مت کھاؤ اور ان (کے جھوٹے مقدمہ) کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ (یعنی) ظلم کے کھا جاؤ اور تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم (بھی) ہو۔

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)

ترجمہ: آپ سے چاندوں کی حالت کی تحقیقات کرتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ وہ چاند آلہٴ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے (اختیاری معاملات مثل عدة مطالبہٴ حقوق) کے لیے اور (غیر اختیاری عبادات مثل) حج (روزہ زکوٰة وغیرہ) کے لیے (5) اور اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو ہاں لیکن فضیلت یہ ہے کہ کوئی شخص (حرام چیزوں سے) بچے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ (6)۔ اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔

5 - شریعت نے بالاصالہ قمری حساب پر احکام و عبادات کا مدار رکھا ہے کہ سب کا اجتماع و اتفاق ان امور میں سہولت سے ممکن ہو پھر بعض احکام میں تو اس حساب پر لازم کر دیا ہے کہ ان میں دوسرے حساب پر مدار رکھنا جائز ہی نہیں جیسے حج ورزہ رمضان، وعيدين وزكوة وعدت طلاق وامثالہا اور بعض میں گو اختیار دیا ہے جیسے کوئی چیز خریدی اور وعدہ ٹھہرا کہ اس وقت سے ایک سال شمسی گزرنے پر زر شمن بے باق کریں گے اس میں شرع نے مجبور نہیں کیا کہ سال قمری ہی پر مطالبہ کا حق ہو جاوے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ابتداء قمری پر مدار رکھا جاوے تو عام طور پر سہولت اس میں ہے۔

6 ۔ بعض لوگ قبل اسلام کے حالت احرام میں حج میں اگر کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تو دروازے سے جانا ممنوع سمجھتے اس لیے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے اللہ تعالی اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو اس سے ایک بڑے کام کی بات معلوم ہوئی کہ جو شے شرعا مباح ہو اس کو طاعت و عبادت اعتقاد کرلینا اور اسی طرح اس کو معصیت اور محل ملامت اعتقاد کرلینا شرعا مذموم ہے اور بدعت میں داخل ہے۔

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)

ترجمہ: اور (بےتکلف) تم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو (نقض عہد کرکے) تمہارے ساتھ لڑنے لگیں اور (ازخود) حد (معاہدہ) سے مت نکلو واقعی اللہ تعالیٰ حد (قانون شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (188) یہ بات تم اُنہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔ 189

188- یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کر سکتے ہو، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دور 7 ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے، مجھ سے عرض معروض کر سکتا ہے، حتی کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الہ اور رب قرار دے رکھا ہے، ان کے پاس تو تمہیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کر سکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں رواے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجاؤ۔

189- یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقت حال معلوم کر کے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس صحیح رویے کی طرف آجائیں، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)

ترجمہ: تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے۔ (190) اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو۔ (191) نیز راتوں کو کھاؤ (192) پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ (193) تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ (194) اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ (195) یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ (196) اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے۔

190- یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے۔

191- ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر ناجائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔

192- اس بارے میں بھی لوگ ابتداء غلط فہمی میں تھے۔ کسی کا خیال تھا کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ سکتا۔ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سمجھ رکھے تھے یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے۔ اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کردی گئی اور غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبي الى السلام نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلوع فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے۔

193- اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دنیا میں ہر وقت ہر مرتبہ تمدن کے لوگ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے ان آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریق توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قطبین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علم جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن، جس معنی میں ہم خط استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دور ہو یا دن کا بہر حال صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی افق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیین اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں۔

194- رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروب آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصے میں افق کے مشرقی کنارے پر سفیدہ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار، دونوں کے معاملے شدت احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ ادھر ادھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوع فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی ہو تو وہ جلدی سے اٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور لی سلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروب آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی السلام سورج ڈوبتے ہی بلال کو آواز دیتے تھے کہ لاؤ ہمارا شربت۔ بلال عرض کرتے کہ یا رسول اللہ ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اٹھنے لگے، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

195- معتلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کر دے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے۔

196- یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے، جس میں نبی صلی علیہ السلام نے فرمایا کہ لکل ملک حمیٰ و ان حمى الله محار مه، فمن رتع حول الحمى، يوشك ان يقع فيه عربی زبان میں حمیٰ اس چرا گاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور صلی اللہ فرماتے ہیں کہ ” ہر بادشاہ کی ایک حملی ہوتی ہے اور اللہ کی حمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حمل کے اندر داخل ہو جائے۔ “ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی روح سے ناواقف ہیں، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اس بار یک خط امتیاز ہی پر گھومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)

ترجمہ: اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (197)

197- اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جاؤ گے۔ عند اللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی یا ہم نے فرمایا انما انا بشر و انتم تختصمون الى و لعل بعضكم يكون الحن بحجته من بعض، فا قضى له على نحو ما اسمع منہ فمن قضيت له بشيء من حق اخيه، فانما اقضى له قطعة من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)

ترجمہ: لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں۔ (198) نیز ان سے کہو یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ (199)

198- چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہل عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دوسری جاہل قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں ان میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی الی السلام سے دریافت کی گئی۔ جواب اللہ تعالی نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس میں کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے، جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ عرب کی مذہبی، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ ان مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔

199- منجملہ ان توہم پرستانہ رسموں کے، جو عرب میں رائج تھیں، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے، بلکہ پیچھے سے دیوار کود کر یا دیوار میں کھڑ کی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے۔ ان بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)

ترجمہ: اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، (200) مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (201)

200- یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں، اور اس بنا پر تمہارے دشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں، ان سے جنگ کرو۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

201- یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال حد سے گزرنے “ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اسی حد تک کیا جائے، جتنی اس کی ضرورت ہو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِي وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (186)

ترجمہ: اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں،

أُحِلَّ لَكُمۡ لَيۡلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمۡۚ هُنَّ لِبَاسٞ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسٞ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَكُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَيۡطُ ٱلۡأَبۡيَضُ مِنَ ٱلۡخَيۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيۡلِۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقۡرَبُوهَاۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُونَ (187)
ترجمہ: روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہو جائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے (پو پھٹ کر) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیز گاری ملے،

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (188)
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاؤ جان بوجھ کر،

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِۖ قُلۡ هِيَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (189)
ترجمہ: تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں تم فرما دو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ گھروں میں پچھیت (پچھلی دیوار) توڑ کر آ ؤ ہاں بھلائی تو پرہیز گاری ہے ، اور گھروں میں دروازوں سے آ ؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ

وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ (190)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: وصیت تبدیل کرنا سخت گناہ مگر حق تلفی کی روک تھام کے لیے اصلاح جائز

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.