ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: وصیت تبدیل کرنا سخت گناہ مگر حق تلفی کی روک تھام کے لیے اصلاح جائز، قرآن کی پانچ آیات کا یومیہ مطالعہ - INTERPRETATION OF QURAN

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 10, 2024, 7:33 AM IST

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی مزید پانچ آیتوں (181-185) کا مختلف تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

قرآن کا مطالعہ
قرآن کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)
  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

ترجمہ: پھر جو شخص اس (وصیت) کے سن لینے کے بعد اس کو تبدیل کرے گا اس کا گناہ ان ہی لوگوں کو ہوگا جو اس کو تبدیل کریں گے اللہ تعالیٰ تو یقینا سنتے جانتے ہیں۔

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

ترجمہ: ہاں جس شخص کو وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی بےعنوانی یا کسی جرم کے ارتکاب کی تحقیق کی ہوئی ہو پھر یہ شخص ان میں باہم مصالحت کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ واقعی اللہ تعالیٰ تو (خود گناہوں کے) معاف فرمانے والے ہیں اور (گناہگاروں پر) رحم کرنے والے ہیں۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

ترجمہ: اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ۔ (2)

2 ۔ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقوی کی یہ روزہ کی ایک حکمت کا بیان ہے لیکن حکمت کا اسی میں انحصار نہیں ہوگا خدا جانے اور کیا کیا ہزاروں حکمتیں ہوں گی۔

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

ترجمہ: تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو پھر (اس میں بھی اتنی آسانی کہ) جو شخص تم میں (ایسا) بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو دوسرے ایام کا شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں ان کے ذمہ فدیہ ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلا دینا یا دیدینا ہے) اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دے) تو یہ اس شخص کے لیے اور بھی بہتر ہے اور تمہارا روزہ رکھنا (اس حال میں) زیادہ بہتر ہے (اگر تم روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو۔ (3)

3 - اب یہ حکم منسوخ ہے البتہ جو شخص بہت بوڑھا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ اب صحت کی توقع نہیں ایسے لوگوں کے لیے یہ حکم اب بھی ہے۔

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: (وہ تھوڑے دن) ماہ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا ہے (4) جس کا (ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے (ذریعٴہ) ہدایت ہے اور (دوسرا وصف) واضح الدلالتہ ہے منجملہ ان (کتب) کے جو (زریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے سو جو شخص بیمار ہو یا سفر میں تو دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (احکام میں) آسانی کرنا منظور ہے اور تمہارے ساتھ (احکام و قوانین مقرر کرنے میں) دشواری منظور نہیں اور تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو (کہ ثواب میں کمی نہ رہے) اور تاکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی (وثنا) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات وثمرات صیام رمضان سے محروم نہ رہو گے) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لیے دیدی) تاکہ تم لوگ (اس نعمت آسمانی پر اللہ کا) شکر ادا کیا کرو۔

4 - قرآن مجید میں دوسری آیت میں آیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید شب قدر میں نازل فرمایا اور یہاں رمضان شریف میں نازل کرنا فرمایا ہے سو وہ شب قدر رمضان کی تھی اس لیے دونوں مضمون موافق ہو گئے اور اگر یہ وسوسہ ہو کہ قرآن مجید تو کئی سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے پھر رمضان میں یا شب قدر میں نازل فرمانے کے کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر دفعتا رمضان کی شب قدر میں نازل ہو چکا تھا پھر آسمان دنیا سے دنیا میں بتدریج کئی سال میں نازل ہوا پس اس میں بھی تعارض نہ رہا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

ترجمہ: پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اُسے بدل ڈالا، توا س کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

ترجمہ: البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ (183)

183- اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی علیہ السلام نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڑھے لوگوں کے لیے، جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں ان سے چھوٹ گئے ہیں۔

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

ترجمہ: چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے (184) تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ (185)

184- یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے۔

185- یہاں تک وہ ابتدائی حکم ہے، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبت مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں۔

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے (186) اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (187)

186- سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی لی اسلام کے ساتھ جو صحابہ " سفر میں جایا کرتے تھے، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت لایا ہم نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی علیہ السلام نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تا که دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر کی روایت ہے کہ ہم نبی ا السلام کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمر کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اسلام نے فرما دیا تھا کہ انه يوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قدد نوتم من عدوكم فافطروا اقوی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ در پیش ہے، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، حضور ملی ایم کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرف عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ريم ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھائے۔ دونوں عمل صحابہ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علامہ ابن تیمیہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔

187- یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیے مخصوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذر شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے دوسرے دنوں میں اس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تاکہ قرآن کی جو نعمت اس نے تم کو دی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محروم نہ رہ جاؤ۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ انہیں مزید براں اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے اس کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہے بیشک اللہ سنتا جانتا ہے ،
ترجمہ: پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرا دی اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے ،
ترجمہ: گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو
ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ، ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: 'عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے'، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

ترجمہ: پھر جو شخص اس (وصیت) کے سن لینے کے بعد اس کو تبدیل کرے گا اس کا گناہ ان ہی لوگوں کو ہوگا جو اس کو تبدیل کریں گے اللہ تعالیٰ تو یقینا سنتے جانتے ہیں۔

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

ترجمہ: ہاں جس شخص کو وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی بےعنوانی یا کسی جرم کے ارتکاب کی تحقیق کی ہوئی ہو پھر یہ شخص ان میں باہم مصالحت کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ واقعی اللہ تعالیٰ تو (خود گناہوں کے) معاف فرمانے والے ہیں اور (گناہگاروں پر) رحم کرنے والے ہیں۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

ترجمہ: اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ۔ (2)

2 ۔ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقوی کی یہ روزہ کی ایک حکمت کا بیان ہے لیکن حکمت کا اسی میں انحصار نہیں ہوگا خدا جانے اور کیا کیا ہزاروں حکمتیں ہوں گی۔

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

ترجمہ: تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو پھر (اس میں بھی اتنی آسانی کہ) جو شخص تم میں (ایسا) بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو دوسرے ایام کا شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں ان کے ذمہ فدیہ ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلا دینا یا دیدینا ہے) اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دے) تو یہ اس شخص کے لیے اور بھی بہتر ہے اور تمہارا روزہ رکھنا (اس حال میں) زیادہ بہتر ہے (اگر تم روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو۔ (3)

3 - اب یہ حکم منسوخ ہے البتہ جو شخص بہت بوڑھا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ اب صحت کی توقع نہیں ایسے لوگوں کے لیے یہ حکم اب بھی ہے۔

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: (وہ تھوڑے دن) ماہ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا ہے (4) جس کا (ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے (ذریعٴہ) ہدایت ہے اور (دوسرا وصف) واضح الدلالتہ ہے منجملہ ان (کتب) کے جو (زریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے سو جو شخص بیمار ہو یا سفر میں تو دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (احکام میں) آسانی کرنا منظور ہے اور تمہارے ساتھ (احکام و قوانین مقرر کرنے میں) دشواری منظور نہیں اور تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو (کہ ثواب میں کمی نہ رہے) اور تاکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی (وثنا) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات وثمرات صیام رمضان سے محروم نہ رہو گے) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لیے دیدی) تاکہ تم لوگ (اس نعمت آسمانی پر اللہ کا) شکر ادا کیا کرو۔

4 - قرآن مجید میں دوسری آیت میں آیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید شب قدر میں نازل فرمایا اور یہاں رمضان شریف میں نازل کرنا فرمایا ہے سو وہ شب قدر رمضان کی تھی اس لیے دونوں مضمون موافق ہو گئے اور اگر یہ وسوسہ ہو کہ قرآن مجید تو کئی سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے پھر رمضان میں یا شب قدر میں نازل فرمانے کے کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر دفعتا رمضان کی شب قدر میں نازل ہو چکا تھا پھر آسمان دنیا سے دنیا میں بتدریج کئی سال میں نازل ہوا پس اس میں بھی تعارض نہ رہا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

ترجمہ: پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اُسے بدل ڈالا، توا س کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

ترجمہ: البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ (183)

183- اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی علیہ السلام نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڑھے لوگوں کے لیے، جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں ان سے چھوٹ گئے ہیں۔

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

ترجمہ: چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے (184) تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ (185)

184- یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے۔

185- یہاں تک وہ ابتدائی حکم ہے، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبت مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں۔

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے (186) اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (187)

186- سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی لی اسلام کے ساتھ جو صحابہ " سفر میں جایا کرتے تھے، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت لایا ہم نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی علیہ السلام نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تا که دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر کی روایت ہے کہ ہم نبی ا السلام کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمر کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اسلام نے فرما دیا تھا کہ انه يوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قدد نوتم من عدوكم فافطروا اقوی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ در پیش ہے، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، حضور ملی ایم کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرف عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ريم ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھائے۔ دونوں عمل صحابہ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علامہ ابن تیمیہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔

187- یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیے مخصوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذر شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے دوسرے دنوں میں اس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تاکہ قرآن کی جو نعمت اس نے تم کو دی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محروم نہ رہ جاؤ۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ انہیں مزید براں اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعۡدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثۡمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ (181)

فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (182)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (183)

أَيَّامٗا مَّعۡدُودَٰتٖۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدۡيَةٞ طَعَامُ مِسۡكِينٖۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥۚ وَأَن تَصُومُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (184)

شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (185)

ترجمہ: تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے اس کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہے بیشک اللہ سنتا جانتا ہے ،
ترجمہ: پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرا دی اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے ،
ترجمہ: گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو
ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ، ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: 'عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے'، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.