ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: 'عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے'، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ - INTERPRETATION OF QURAN

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی مزید پانچ آیتوں (176-180) کا مختلف تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

قرآن کا مطالعہ
قرآن کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 9, 2024, 7:15 AM IST

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف (175)، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

175- مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے، دراصل مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص (176) کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص (177) لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، (178) تو معروف طریقے (179) کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، (180) اس کے لیے دردناک سزا ہے۔

176- قصاص، یعنی خون کا بدلہ یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اس کے ساتھ کیا جائے۔

177- جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خون اس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزز آدمی اگر دوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزز آدمی مارا جائے یا اس کے کئی آدمی ان کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول ان کی نگاہ میں کوئی ادنی درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزت رکھنے والا شخص ہوتا، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذب سمجھا جاتا ہے، ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اڑائے گئے۔ ایک ” مہذب “ قوم نے اسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ” سرلی اسٹیک “ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا۔ دوسری طرف ان نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، ، تو ان کے حج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں، جن کے سد باب کا حکم اللہ تعالی نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔

178- ” بھائی “ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے شخص کے درمیان باپ مارے کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصے کو پی جاؤ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا که اسلامی قانون تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا، معافی کی صورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا۔

179- ” معروف “ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریق کار ہے، جس سے بالعموم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اٹھے کہ بیشک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریق عمل ہے۔ رواج عام ( Common Law) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ” عرف “ اور ” معروف “ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے، جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو۔

180- (مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے (181) اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔

181- یہ ایک دوسری جاہلیت کی تردید ہے، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہل جاہلیت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دنیا کے متعدد ملکوں نے اسے بالکل منسوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہل عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کرتا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر (182)

182- یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا۔ اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالی نے خود ایک ضابطہ بنادیا ( جو آگے سورۃ نساء میں آنے والا ہے) ، تو نبی صلی علیہ السلام نے احکام میراث کی توضیح میں حسب ذیل دو قاعدے بیان فرمائے ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا، یعنی جن رشتے داروں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں، ان کے حصوں میں نہ تو وصیت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے، نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وصیت کل جائداد کے صرف ایک تہائی حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے۔

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ (ساری مذکورہ) سزائیں (ان کو) اس وجہ سے ہیں کہ حق تعالیٰ نے (اس) کتاب کو ٹھیک ٹھیک بھیجا تھا۔ اور جو لوگ (ایسی) کتاب میں بے راہی کریں وہ بڑی دور کے خلاف میں ہونگے۔ (1)

1 - آیات آئندہ میں کہ بقیہ نصف بقرہ ہے۔ زیادہ مقصود مسلمانوں کو بعض اصول و فروع کی تعلیم کرنا ہے گو ضمنا غیر مسلمین کو کوئی خطاب ہو جائے اور یہ مضمون ختم سورت تک چلا گیا ہے جس کو شروع کیا گیا ہے ایک مجمل عنوان بر سے جو کہ تمام طاعات ظاہری و باطنی کو عام ہے اور اول آیات میں الفاظ جامعہ سے ایک کلی تعلیم کی گئی ہے آگے اس بر کی تفصیل چلی ہے جس میں بہت سے احکام باقتضائے وقت و مقام بقدر ضرورت بیان فرما کر بشارت وعده رحمت و مغفرت پر ختم فرمادیا۔

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: کچھ سارا کمال اسی میں نہیں (آگیا) کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو (2) لیکن (اصلی) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (سب) کتب (سماویہ) پر اور پیغمبروں پر اور مال دیتا ہو اس (الله) کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور (بےخرچ) مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی رکھتا ہو اور زکوٰةبھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص (ان عقائد و اعمال کے ساتھ یہ اخلاق بھی رکھتے ہوں کہ) اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کرلیں اور وہ لوگ مستقل رہنے والے ہوں تنگدستی اور بیماری میں اور قتال میں یہ لوگ ہیں جو سچے (کمال کے ساتھ موصوف) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو (سچے) متقی (کہے جاسکتے) ہیں۔ (3)

2 - خاص سمتوں کا قصہ یہاں اس لیے مذکور ہوا کہ تحویل قبلہ کے وقت تمام تر بحث یہود و نصاری کی اس میں رہ گئی تھی اس لیے متنبہ فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کام اور ہیں ان کا اہتمام کرو۔

3 - غرض اصلی مقاصد اور کمالات دین کے یہ ہیں نماز میں کسی سمت کو منہ کرنا ان ہی کمالات مذکورہ میں سے ایک کمال خاص ہے یعنی اقامت صلوۃ کے توابع و شرائط میں سے اور اس کے حسن سے اس میں بھی حسن آگیا ورنہ اگر نماز نہ ہوتی تو کسی خاص سمت کو منہ کرنا بھی عبادت نہ ہوتا۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے مقتولین (بقتل عہد) کے بارے میں آزاد آدمی کے عوض میں اور غلام غلام کے عوض میں اور عورت عورت کے عوض میں ہاں جس کو اس کے فریق کی طرف سے کچھ معافی ہوجاوے (مگر پوری معافی نہ ہو) تو (مدعی کے ذمے) معقول طور پر (خونبہا کا) مطالبہ کرنا اور (قاتل کے ذمے) خوبی کے ساتھ اس کے پاس پہنچا دینا یہ (قانون دیت و عفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے (سزا میں) تخفیف ہے اور (شاہانہ) ترحم ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد تعدی کا مرتکب ہو تو اس شخص کو بڑا دردناک عذاب ہوگا۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: اور فہیم لوگو ! (اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے ہم امید کرتے ہیں کہ تم لوگ (ایسے قانون امن کی خلاف ورزی کرنے سے) پرہیز رکھو گے۔

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب کسی کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہو تو والدین اور اقارب کے لیے معقول طور پر (کہ مجموعہ ایک ثلث سے زیادہ نہ ہو) کچھ کچھ بتلا جاوے (اس کا نام وصیت ہے) جن کو خدا کا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری ہے۔ (1)

1 ۔ اس حکم کے تین جزو تھے ایک بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص و حقوق ترکہ میں معین نہ ہونا۔ دوم ایسے اقارت کے لیے وصیت کا واجب ہونا۔ تیسرے ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا۔ پس پہلا جزو تو آیت میراث سے منسوخ ہے دوسرا جزو حدیث سے جو کہ موید بالا جماع ہے منسوخ ہے اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا۔ یعنی وراثت شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے تیسرا جزو اب بھی باقی ہے ثلث سے زائد میں بدون رضاء ورثہ وصیت باطل ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری، اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں،

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھڑوانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں،

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقل مندو کہ تم کہیں بچو،

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: 'ایسی کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو' میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف (175)، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

175- مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے، دراصل مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص (176) کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص (177) لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، (178) تو معروف طریقے (179) کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، (180) اس کے لیے دردناک سزا ہے۔

176- قصاص، یعنی خون کا بدلہ یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اس کے ساتھ کیا جائے۔

177- جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خون اس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزز آدمی اگر دوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزز آدمی مارا جائے یا اس کے کئی آدمی ان کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول ان کی نگاہ میں کوئی ادنی درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزت رکھنے والا شخص ہوتا، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذب سمجھا جاتا ہے، ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اڑائے گئے۔ ایک ” مہذب “ قوم نے اسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ” سرلی اسٹیک “ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا۔ دوسری طرف ان نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، ، تو ان کے حج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں، جن کے سد باب کا حکم اللہ تعالی نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔

178- ” بھائی “ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے شخص کے درمیان باپ مارے کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصے کو پی جاؤ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا که اسلامی قانون تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا، معافی کی صورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا۔

179- ” معروف “ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریق کار ہے، جس سے بالعموم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اٹھے کہ بیشک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریق عمل ہے۔ رواج عام ( Common Law) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ” عرف “ اور ” معروف “ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے، جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو۔

180- (مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے (181) اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔

181- یہ ایک دوسری جاہلیت کی تردید ہے، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہل جاہلیت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دنیا کے متعدد ملکوں نے اسے بالکل منسوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہل عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کرتا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر (182)

182- یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا۔ اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالی نے خود ایک ضابطہ بنادیا ( جو آگے سورۃ نساء میں آنے والا ہے) ، تو نبی صلی علیہ السلام نے احکام میراث کی توضیح میں حسب ذیل دو قاعدے بیان فرمائے ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا، یعنی جن رشتے داروں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں، ان کے حصوں میں نہ تو وصیت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے، نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جاسکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وصیت کل جائداد کے صرف ایک تہائی حصے کی حد تک کی جاسکتی ہے۔

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ (ساری مذکورہ) سزائیں (ان کو) اس وجہ سے ہیں کہ حق تعالیٰ نے (اس) کتاب کو ٹھیک ٹھیک بھیجا تھا۔ اور جو لوگ (ایسی) کتاب میں بے راہی کریں وہ بڑی دور کے خلاف میں ہونگے۔ (1)

1 - آیات آئندہ میں کہ بقیہ نصف بقرہ ہے۔ زیادہ مقصود مسلمانوں کو بعض اصول و فروع کی تعلیم کرنا ہے گو ضمنا غیر مسلمین کو کوئی خطاب ہو جائے اور یہ مضمون ختم سورت تک چلا گیا ہے جس کو شروع کیا گیا ہے ایک مجمل عنوان بر سے جو کہ تمام طاعات ظاہری و باطنی کو عام ہے اور اول آیات میں الفاظ جامعہ سے ایک کلی تعلیم کی گئی ہے آگے اس بر کی تفصیل چلی ہے جس میں بہت سے احکام باقتضائے وقت و مقام بقدر ضرورت بیان فرما کر بشارت وعده رحمت و مغفرت پر ختم فرمادیا۔

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: کچھ سارا کمال اسی میں نہیں (آگیا) کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو (2) لیکن (اصلی) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (سب) کتب (سماویہ) پر اور پیغمبروں پر اور مال دیتا ہو اس (الله) کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور (بےخرچ) مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی رکھتا ہو اور زکوٰةبھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص (ان عقائد و اعمال کے ساتھ یہ اخلاق بھی رکھتے ہوں کہ) اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کرلیں اور وہ لوگ مستقل رہنے والے ہوں تنگدستی اور بیماری میں اور قتال میں یہ لوگ ہیں جو سچے (کمال کے ساتھ موصوف) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو (سچے) متقی (کہے جاسکتے) ہیں۔ (3)

2 - خاص سمتوں کا قصہ یہاں اس لیے مذکور ہوا کہ تحویل قبلہ کے وقت تمام تر بحث یہود و نصاری کی اس میں رہ گئی تھی اس لیے متنبہ فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کام اور ہیں ان کا اہتمام کرو۔

3 - غرض اصلی مقاصد اور کمالات دین کے یہ ہیں نماز میں کسی سمت کو منہ کرنا ان ہی کمالات مذکورہ میں سے ایک کمال خاص ہے یعنی اقامت صلوۃ کے توابع و شرائط میں سے اور اس کے حسن سے اس میں بھی حسن آگیا ورنہ اگر نماز نہ ہوتی تو کسی خاص سمت کو منہ کرنا بھی عبادت نہ ہوتا۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے مقتولین (بقتل عہد) کے بارے میں آزاد آدمی کے عوض میں اور غلام غلام کے عوض میں اور عورت عورت کے عوض میں ہاں جس کو اس کے فریق کی طرف سے کچھ معافی ہوجاوے (مگر پوری معافی نہ ہو) تو (مدعی کے ذمے) معقول طور پر (خونبہا کا) مطالبہ کرنا اور (قاتل کے ذمے) خوبی کے ساتھ اس کے پاس پہنچا دینا یہ (قانون دیت و عفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے (سزا میں) تخفیف ہے اور (شاہانہ) ترحم ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد تعدی کا مرتکب ہو تو اس شخص کو بڑا دردناک عذاب ہوگا۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: اور فہیم لوگو ! (اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے ہم امید کرتے ہیں کہ تم لوگ (ایسے قانون امن کی خلاف ورزی کرنے سے) پرہیز رکھو گے۔

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب کسی کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہو تو والدین اور اقارب کے لیے معقول طور پر (کہ مجموعہ ایک ثلث سے زیادہ نہ ہو) کچھ کچھ بتلا جاوے (اس کا نام وصیت ہے) جن کو خدا کا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری ہے۔ (1)

1 ۔ اس حکم کے تین جزو تھے ایک بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص و حقوق ترکہ میں معین نہ ہونا۔ دوم ایسے اقارت کے لیے وصیت کا واجب ہونا۔ تیسرے ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا۔ پس پہلا جزو تو آیت میراث سے منسوخ ہے دوسرا جزو حدیث سے جو کہ موید بالا جماع ہے منسوخ ہے اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا۔ یعنی وراثت شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے تیسرا جزو اب بھی باقی ہے ثلث سے زائد میں بدون رضاء ورثہ وصیت باطل ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَفِي شِقَاقِۭ بَعِيدٖ (176)

ترجمہ: یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری، اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں،

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَٰهَدُواْۖ وَٱلصَّٰبِرِينَ فِي ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِۗ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (177)

ترجمہ: کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھڑوانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں،

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ وَٱلۡعَبۡدُ بِٱلۡعَبۡدِ وَٱلۡأُنثَىٰ بِٱلۡأُنثَىٰۚ فَمَنۡ عُفِيَ لَهُۥ مِنۡ أَخِيهِ شَيۡءٞ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيۡهِ بِإِحۡسَٰنٖۗ ذَٰلِكَ تَخۡفِيفٞ مِّن رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٞۗ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ بَعۡدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٞ (178)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

وَلَكُمۡ فِي ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٞ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (179)

ترجمہ: اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقل مندو کہ تم کہیں بچو،

كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُتَّقِينَ (180)

ترجمہ: تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: 'ایسی کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو' میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.