ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: نظامِ قدرت اور کائنات میں پھیلی نشانیوں پر غور و خوض کرنے کی دعوت، قرآن کی پانچ آیات کا یومیہ مطالعہ - FARMAN E ILAHI

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی مزید پانچ آیات (161-165) کا بیان القرآن، تفہیم القرآن اور کنز الایمان کے تراجم اور تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 6, 2024, 7:32 AM IST

Updated : Jul 6, 2024, 8:44 AM IST

قرآن کا مطالعہ
قرآن کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)
  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: البتہ جو لوگ (ان میں سے) اسلام نہ لاویں اور اسی حالت غیر اسلام پر مرجاویں ایسے لوگوں پر (وہ) لعنت (مذکورہ) اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی بھی سب کی (ایسے طور پر برساکرے گی کہ) ۔

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں رہیں گے۔ ان سے عذاب ہلکا نہ ہونے پاوے گا اور نہ ( داخل ہونے کے قبل) ان کو مہلت دی جاوے گی۔

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: اور (ایسا معبود) جو تم سب کا معبود (بننے کا مستحق) ہے وہ تو ایک ہی معبود (حقیقی) ہے اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (وہی) رحمٰن و رحیم ہے۔ (2)

2 - مشرکین عرب نے جو آیت والحکم الہ واحد اپنے عقیدے کے خلاف سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ کہیں سارے جہان کا ایک معبود بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ دعوی صحیح ہو تو کوئی دلیل پیش کرنا چاہیے حق تعالی دلیل توجیہ بیان فرماتے ہیں۔

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں ( اور اسباب) لے کر اور (بارش کے) پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلادئیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید ( اور معلق) رہتا ہے دلائل (توحید کے موجود) ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں۔ (3)

3۔ اوپر کی آیات میں توحید کا اثبات تھا آگے مشرکین کی غلطی اور وعید کا بیان فرماتے ہیں۔
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو علاوہ خدا تعالیٰ کے اوروں کو بھی شریک (خدائی) قرار دیتے ہیں ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے (رکھنا) ضروری ہے اور جو مومن ہیں ان کو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے (4) اور کیا خوب ہوتا اگر یہ ظالم (مشرکین) جب (دنیا میں) کسی مصیبت کو دیکھتے (تو اس کے وقوع میں غور کر کے سمجھ لیا کرتے) کہ سب قوت حق تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ (کہ سمجھ لیا کرتے) کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب (آخرت میں اور بھی) سخت ہوگا۔ (5)

4 ۔ اگر کسی مشرک کو یہ ثابت ہو جاوے کہ میرے معبود سے مجھ پر ضرر پڑے گا تو فورا محبت منقطع ہو جاوے اور مومن باوجود اس کے کہ نافع ضار حق تعالی ہی کو اعتقاد کرتا ہے لیکن پھر بھی محبت ورضا اس کی باقی رہتی ہے۔

5 ۔ اور عذاب آخرت کو سخت فرمایا ہے آگے اس سختی کی کیفیت کا بیان فرماتے ہیں۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: جن لوگوں نے کفر کا رویہ (161) اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔

161- کفر “ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفهوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کر لینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا، رد کر دینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں

ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے۔

دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ تیسرے یہ کہ اُصولاً اس بات کو بھی تسلیم کرلے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بناتا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔

چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔

پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔

چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے۔

یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی، نمک حرامی، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ اُن کی سز امیں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: (اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (162)

162- یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق حکیم کے زیر فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجودات عالم کا خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور الوہیت میں اس کا کوئی حصہ ہو۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: (مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے اِن کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں (163) اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں (164) کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔

163- یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں ان میں سے بعض کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالی کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا ان میں سے بعض حقوق یہ لوگ ان دوسرے بناوٹی معبودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اسی کو مقتدر اعلیٰ مانیں، اسی کے آگے اعتراف بندگی میں سر جھکائیں، اسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجوع کریں، اسی کو مدد کے لیے پکاریں، اسی پر بھروسہ کریں، اسی سے امیدیں وابستہ کریں اور اسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیت کے لیے حلال و حرام کے حدود مقرر کرے، ان کے فرائض و حقوق معین کرے، ان کو امر و نہی کے احکام دے، اور انہیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبع قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختار سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رجوع کریں۔ جو شخص خدا کی ان صفات میں سے کسی صفت کو بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، اور اس کے ان حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اسے خدا کا مد مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ ان صفات میں سے کسی صفت کا مدعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مد مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔

164- یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی،

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے،

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں،

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنا لیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں اور کیسے ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے،

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: موت ہی نہیں بلکہ ہر مصیبت پر پڑھنا چاہیے 'إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ'، قرآن کی پانچ آیات کا یومیہ مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: البتہ جو لوگ (ان میں سے) اسلام نہ لاویں اور اسی حالت غیر اسلام پر مرجاویں ایسے لوگوں پر (وہ) لعنت (مذکورہ) اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی بھی سب کی (ایسے طور پر برساکرے گی کہ) ۔

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں رہیں گے۔ ان سے عذاب ہلکا نہ ہونے پاوے گا اور نہ ( داخل ہونے کے قبل) ان کو مہلت دی جاوے گی۔

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: اور (ایسا معبود) جو تم سب کا معبود (بننے کا مستحق) ہے وہ تو ایک ہی معبود (حقیقی) ہے اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (وہی) رحمٰن و رحیم ہے۔ (2)

2 - مشرکین عرب نے جو آیت والحکم الہ واحد اپنے عقیدے کے خلاف سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ کہیں سارے جہان کا ایک معبود بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ دعوی صحیح ہو تو کوئی دلیل پیش کرنا چاہیے حق تعالی دلیل توجیہ بیان فرماتے ہیں۔

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں ( اور اسباب) لے کر اور (بارش کے) پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلادئیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید ( اور معلق) رہتا ہے دلائل (توحید کے موجود) ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں۔ (3)

3۔ اوپر کی آیات میں توحید کا اثبات تھا آگے مشرکین کی غلطی اور وعید کا بیان فرماتے ہیں۔
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو علاوہ خدا تعالیٰ کے اوروں کو بھی شریک (خدائی) قرار دیتے ہیں ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے (رکھنا) ضروری ہے اور جو مومن ہیں ان کو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے (4) اور کیا خوب ہوتا اگر یہ ظالم (مشرکین) جب (دنیا میں) کسی مصیبت کو دیکھتے (تو اس کے وقوع میں غور کر کے سمجھ لیا کرتے) کہ سب قوت حق تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ (کہ سمجھ لیا کرتے) کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب (آخرت میں اور بھی) سخت ہوگا۔ (5)

4 ۔ اگر کسی مشرک کو یہ ثابت ہو جاوے کہ میرے معبود سے مجھ پر ضرر پڑے گا تو فورا محبت منقطع ہو جاوے اور مومن باوجود اس کے کہ نافع ضار حق تعالی ہی کو اعتقاد کرتا ہے لیکن پھر بھی محبت ورضا اس کی باقی رہتی ہے۔

5 ۔ اور عذاب آخرت کو سخت فرمایا ہے آگے اس سختی کی کیفیت کا بیان فرماتے ہیں۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: جن لوگوں نے کفر کا رویہ (161) اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔

161- کفر “ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفهوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کر لینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا، رد کر دینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں

ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے۔

دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ تیسرے یہ کہ اُصولاً اس بات کو بھی تسلیم کرلے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بناتا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔

چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔

پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔

چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے۔

یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی، نمک حرامی، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ اُن کی سز امیں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: (اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (162)

162- یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق حکیم کے زیر فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجودات عالم کا خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور الوہیت میں اس کا کوئی حصہ ہو۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: (مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے اِن کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں (163) اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں (164) کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔

163- یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں ان میں سے بعض کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالی کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا ان میں سے بعض حقوق یہ لوگ ان دوسرے بناوٹی معبودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اسی کو مقتدر اعلیٰ مانیں، اسی کے آگے اعتراف بندگی میں سر جھکائیں، اسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجوع کریں، اسی کو مدد کے لیے پکاریں، اسی پر بھروسہ کریں، اسی سے امیدیں وابستہ کریں اور اسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیت کے لیے حلال و حرام کے حدود مقرر کرے، ان کے فرائض و حقوق معین کرے، ان کو امر و نہی کے احکام دے، اور انہیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبع قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختار سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رجوع کریں۔ جو شخص خدا کی ان صفات میں سے کسی صفت کو بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، اور اس کے ان حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اسے خدا کا مد مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ ان صفات میں سے کسی صفت کا مدعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مد مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔

164- یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ (161)

ترجمہ: بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی،

خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنظَرُونَ (162)

ترجمہ: ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے،

وَإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ (163)

ترجمہ: اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان

إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِي تَجۡرِي فِي ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٖ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٖ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأٓيَٰتٖ لِّقَوۡمٖ يَعۡقِلُونَ (164)

ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں،

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادٗا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبّٗا لِّلَّهِۗ وَلَوۡ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذۡ يَرَوۡنَ ٱلۡعَذَابَ أَنَّ ٱلۡقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعٗا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعَذَابِ (165)

ترجمہ: اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنا لیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں اور کیسے ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے،

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: موت ہی نہیں بلکہ ہر مصیبت پر پڑھنا چاہیے 'إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ'، قرآن کی پانچ آیات کا یومیہ مطالعہ

Last Updated : Jul 6, 2024, 8:44 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.