ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: آیت الکرسی کا معنیٰ و مفہوم اور اس کی فضیلت - Interpretation of ayatul kursi

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 23, 2024, 7:13 AM IST

احادیث میں آیت الکرسی کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سنن النسائی کی ایک حدیث ہے کہ 'جوشخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تواس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔' اس آیت کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر ہم اس کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ Importance And Benefits of Ayatul Kursi

ayatul kursi
آیت الکرسی کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)
  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: 'اللہ تعالیٰ ( ایسا ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔ (3) زندہ ہے سنبھالنے والا ہے (تمام عالم کا) ۔ نہ اس کو اونگھ دباسکتی ہے اور نہ نیند اسی کے مملوک ہیں سب جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں۔ ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس (کسی کی) سفارش کرسکے بدون اس کی اجازت کے۔ (4) وہ جانتا ہے ان کے تمام حاضر اور غائب حالات کو اور وہ (موجودات) اس کے معلومات میں سے کسی چیز کو اپنے احاطہٴ علمی میں نہیں لاسکتے مگر جس قدر (علم دینا وہی) چاہے اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (5) اور اللہ تعالیٰ کو ان دونوں کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی اور وہ عالیشان عظیم الشان ہے۔'

3- یہ آیت ملقب به آیت الکرسی ہے۔

4 - قیامت میں انبیاء و اولیا گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے وہ

اول حق تعالیٰ کی مرضی پالیں گے جب شفاعت کریں گے۔

5 ۔ کرسی ایک جسم ہے عرش سے چھوٹا اور آسمانوں سے بڑا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ (278) وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ (279) زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ (280) کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ (281) جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ (282) اُس کی حکومت (283) آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ (284)

278- یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود (الہ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔

279- یہ ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہے، جو خداوند عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسوب کرتے ہیں، جو انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا۔

280- یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیت میں، اس کی تدبیر میں اور اس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دوسری ہستی کا بھی تم تصور کر سکتے ہو، وہ بہر حال اس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کا فرد ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اس کا شریک اور ہمسر۔

281- یہ ان مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے، جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرب ترین فرشتہ اس پادشاہ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جرات نہیں رکھتا۔

282- اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اوپر کے فقروں میں اللہ تعالی کی غیر محدود حاکمیت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصور پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالاستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے، جبکہ کسی دوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یا جن یا فرشتے یا دوسری مخلوقات، سب کا علم ناقص اور محدود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی کسی بندے

کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہو جائے۔ نظام عالم تو رہا در کنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوند عالم ہی پوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے۔

283- اصل میں لفظ ” گریسی “ استعمال ہوا ہے، جسے بالعموم حکومت و اقتدار کے لیے استعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اکثر کرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مراد لیتے ہیں۔

284- یہ آیت ” آیت الکرسی “ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالی کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوند عالم کی ذات وصفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگی عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالی کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا، تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے، جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوع انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہر حال حقیقت نفس الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔ جو اسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا، وہ آپ نقصان اٹھائے گا۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: 'اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے آسمان اور زمین اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔'
یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: قرآن کی نظر میں قرض حسنہ اور انفاق کی اہمیت

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: 'اللہ تعالیٰ ( ایسا ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔ (3) زندہ ہے سنبھالنے والا ہے (تمام عالم کا) ۔ نہ اس کو اونگھ دباسکتی ہے اور نہ نیند اسی کے مملوک ہیں سب جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں۔ ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس (کسی کی) سفارش کرسکے بدون اس کی اجازت کے۔ (4) وہ جانتا ہے ان کے تمام حاضر اور غائب حالات کو اور وہ (موجودات) اس کے معلومات میں سے کسی چیز کو اپنے احاطہٴ علمی میں نہیں لاسکتے مگر جس قدر (علم دینا وہی) چاہے اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (5) اور اللہ تعالیٰ کو ان دونوں کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی اور وہ عالیشان عظیم الشان ہے۔'

3- یہ آیت ملقب به آیت الکرسی ہے۔

4 - قیامت میں انبیاء و اولیا گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے وہ

اول حق تعالیٰ کی مرضی پالیں گے جب شفاعت کریں گے۔

5 ۔ کرسی ایک جسم ہے عرش سے چھوٹا اور آسمانوں سے بڑا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ (278) وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے۔ (279) زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ (280) کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ (281) جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ (282) اُس کی حکومت (283) آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ (284)

278- یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود (الہ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔

279- یہ ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہے، جو خداوند عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسوب کرتے ہیں، جو انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا۔

280- یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیت میں، اس کی تدبیر میں اور اس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دوسری ہستی کا بھی تم تصور کر سکتے ہو، وہ بہر حال اس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کا فرد ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اس کا شریک اور ہمسر۔

281- یہ ان مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے، جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرب ترین فرشتہ اس پادشاہ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جرات نہیں رکھتا۔

282- اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اوپر کے فقروں میں اللہ تعالی کی غیر محدود حاکمیت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصور پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالاستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے، جبکہ کسی دوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یا جن یا فرشتے یا دوسری مخلوقات، سب کا علم ناقص اور محدود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی کسی بندے

کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہو جائے۔ نظام عالم تو رہا در کنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوند عالم ہی پوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے۔

283- اصل میں لفظ ” گریسی “ استعمال ہوا ہے، جسے بالعموم حکومت و اقتدار کے لیے استعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اکثر کرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مراد لیتے ہیں۔

284- یہ آیت ” آیت الکرسی “ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالی کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوند عالم کی ذات وصفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگی عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالی کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا، تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے، جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوع انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہر حال حقیقت نفس الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے۔ جو اسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا، وہ آپ نقصان اٹھائے گا۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (255)

ترجمہ: 'اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے آسمان اور زمین اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔'
یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: قرآن کی نظر میں قرض حسنہ اور انفاق کی اہمیت

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.