ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: بنی اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور قرآن کی یاد دہانی، سورہ بقرہ کی آیات 46 تا 50 کا مطالعہ - Surah Baqarah Verses 46 To 50

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 12, 2024, 7:11 AM IST

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی آیات (46-50) کا تفسیر بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)، تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی) اور کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی) کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

Interpretation of Verses 46 To 50 of Surah Baqarah
سورہ بقرہ کی آیات 46 تا 50 کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'وہ (خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور اس (بات) کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ بیشک اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں۔'

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے اولاد یعقوب کی تم لوگ میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم کو انعام دی تھی اور اس (بات) کو (یاد کرو) کہ میں نے تم کو تمام دنیا جہان والوں پر (خاص برتاؤ میں) فوقیت دی تھی۔'

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: اور ڈرو تم ایسے دن سے کہ نہ تو کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے کچھ مطالبہ ادا کر سکتا ہے ورنہ کسی (شخص) کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو سکتی ہے اور نہ کسی (شخص) کی طرف سے کوئی معاوضہ لیا جاسکتا ہے اور نہ ان لوگوں کی طرفداری چل سکے گی۔' (7)

7 ۔ یہ دن قیامت کا ہوگا۔

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 'اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو متعلقین فرعون سے جو فکر میں لگے رہتے تھے تمہاری سخت آزاری کے گلے کاٹتے تھے تمہاری اولاد ذکور کے اور زندہ چھوڑ دیتے تھے تمہاری عورتوں کو اس (واقعہ ) میں ایک امتحان تھا تمہارے پروردگار کی جانب سے بڑا بھاری۔' ( 1 )

1 ۔ کسی نے فرعون سے پیش گوئی کر دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا جس کے ہاتھوں تیرے سلطنت جاتی رہے گی، اس نے اس لیے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'اور جب شق کر دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریائے شور کو پھر ہم نے (ڈوبنے سے بچالیا تم کو اور غرق کر دیا متعلقین فرعون کو مع فرعون کے) اور تم اس کا معائنہ کر رہے تھے۔' (2)

2 ۔ یہ قصہ اس وقت ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہو کر پیغمبر ہو گئے اور مدتوں فرعون کو سمجھاتے رہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ جانا 61 ہے۔'

61- یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے، جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا۔ مگر جو برضا ورغبت خدا کے آگے سر اطاعت خم کرچکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے، اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی' 62

62- یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علم حق تھا اور جسے اقوام عالم کا امام و رہنما بنادیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگی رب کے راستے پر سب قوموں کو بلائے اور چلائے۔

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: 'اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔' 63

63- بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی۔ وہ اس قسم کے خیالات خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں، بڑے بڑے اولیا، صلحا اور زہاد سے نسبت رکھتے ہیں، ہماری بخشش تو انہیں بزرگوں کے صدقے میں ہو جائے گی، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے۔ انہیں جھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکر میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 64 'یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں 65 کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے، تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی' 66

64- یہاں سے بعد کے کئی رکوعوں تک مسلسل جن واقعات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، وہ سب بنی اسرائیل کی تاریخ کے مشہور ترین واقعات ہیں، جنہیں اس قوم کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ اسی لیے تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک ایک واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصود ہے کہ ایک طرف یہ اور یہ احسانات ہیں جو خدا نے تم پر کیے، اور دوسری طرف یہ اور یہ کرتوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے۔

65- "آل فرعون" کا ترجمہ ہم نے اس لفظ سے کیا ہے۔ اس خاندان فراعنہ اور مصر کا حکمران طبقہ دونوں شامل ہیں۔

66- آزمائش اس امر کی کہ اس بھٹی سے تم خالص سونا بن کر نکلتے ہو یا نری کھوٹ بن کر رہ جاتے ہو۔ اور آزمائش اس امر کی کہ اتنی بڑی مصیبت سے اس معجزانہ طریقہ پر نجات پانے کے بعد بھی تم اللہ کے شکر گزار بندے بنتے ہو یا نہیں۔

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونوں کو غرقاب کیا'

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا۔'

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے اولاد یعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی۔'

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: 'اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہو سکے گی اور نہ (کافر کے لئے ) کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر (اس کی) جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو۔'

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 'اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام)'

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچا لیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا۔'

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: حق اور باطل کی آمیزش پر قرآن کا سخت انتباہ، سورہ بقرہ کی آیات 41 تا 45 کا مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'وہ (خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور اس (بات) کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ بیشک اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں۔'

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے اولاد یعقوب کی تم لوگ میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم کو انعام دی تھی اور اس (بات) کو (یاد کرو) کہ میں نے تم کو تمام دنیا جہان والوں پر (خاص برتاؤ میں) فوقیت دی تھی۔'

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: اور ڈرو تم ایسے دن سے کہ نہ تو کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے کچھ مطالبہ ادا کر سکتا ہے ورنہ کسی (شخص) کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو سکتی ہے اور نہ کسی (شخص) کی طرف سے کوئی معاوضہ لیا جاسکتا ہے اور نہ ان لوگوں کی طرفداری چل سکے گی۔' (7)

7 ۔ یہ دن قیامت کا ہوگا۔

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 'اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو متعلقین فرعون سے جو فکر میں لگے رہتے تھے تمہاری سخت آزاری کے گلے کاٹتے تھے تمہاری اولاد ذکور کے اور زندہ چھوڑ دیتے تھے تمہاری عورتوں کو اس (واقعہ ) میں ایک امتحان تھا تمہارے پروردگار کی جانب سے بڑا بھاری۔' ( 1 )

1 ۔ کسی نے فرعون سے پیش گوئی کر دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا جس کے ہاتھوں تیرے سلطنت جاتی رہے گی، اس نے اس لیے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'اور جب شق کر دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریائے شور کو پھر ہم نے (ڈوبنے سے بچالیا تم کو اور غرق کر دیا متعلقین فرعون کو مع فرعون کے) اور تم اس کا معائنہ کر رہے تھے۔' (2)

2 ۔ یہ قصہ اس وقت ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہو کر پیغمبر ہو گئے اور مدتوں فرعون کو سمجھاتے رہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ جانا 61 ہے۔'

61- یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے، جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا۔ مگر جو برضا ورغبت خدا کے آگے سر اطاعت خم کرچکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے، اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی' 62

62- یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علم حق تھا اور جسے اقوام عالم کا امام و رہنما بنادیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگی رب کے راستے پر سب قوموں کو بلائے اور چلائے۔

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: 'اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔' 63

63- بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی۔ وہ اس قسم کے خیالات خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں، بڑے بڑے اولیا، صلحا اور زہاد سے نسبت رکھتے ہیں، ہماری بخشش تو انہیں بزرگوں کے صدقے میں ہو جائے گی، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے۔ انہیں جھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکر میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 64 'یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں 65 کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے، تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی' 66

64- یہاں سے بعد کے کئی رکوعوں تک مسلسل جن واقعات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، وہ سب بنی اسرائیل کی تاریخ کے مشہور ترین واقعات ہیں، جنہیں اس قوم کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ اسی لیے تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک ایک واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصود ہے کہ ایک طرف یہ اور یہ احسانات ہیں جو خدا نے تم پر کیے، اور دوسری طرف یہ اور یہ کرتوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے۔

65- "آل فرعون" کا ترجمہ ہم نے اس لفظ سے کیا ہے۔ اس خاندان فراعنہ اور مصر کا حکمران طبقہ دونوں شامل ہیں۔

66- آزمائش اس امر کی کہ اس بھٹی سے تم خالص سونا بن کر نکلتے ہو یا نری کھوٹ بن کر رہ جاتے ہو۔ اور آزمائش اس امر کی کہ اتنی بڑی مصیبت سے اس معجزانہ طریقہ پر نجات پانے کے بعد بھی تم اللہ کے شکر گزار بندے بنتے ہو یا نہیں۔

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونوں کو غرقاب کیا'

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُواْ رَبِّهِمۡ وَأَنَّهُمۡ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (46)

ترجمہ: 'جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا۔'

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَنِّي فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ (47)

ترجمہ: 'اے اولاد یعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی۔'

وَٱتَّقُواْ يَوۡمٗا لَّا تَجۡزِي نَفۡسٌ عَن نَّفۡسٖ شَيۡـٔٗا وَلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَٰعَةٞ وَلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٞ وَلَا هُمۡ يُنصَرُونَ (48)

ترجمہ: 'اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہو سکے گی اور نہ (کافر کے لئے ) کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر (اس کی) جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو۔'

وَإِذۡ نَجَّيۡنَٰكُم مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَسُومُونَكُمۡ سُوٓءَ ٱلۡعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُونَ نِسَآءَكُمۡۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَآءٞ مِّن رَّبِّكُمۡ عَظِيمٞ (49)

ترجمہ: 'اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام)'

وَإِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ ٱلۡبَحۡرَ فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ (50)

ترجمہ: 'اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچا لیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا۔'

یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: حق اور باطل کی آمیزش پر قرآن کا سخت انتباہ، سورہ بقرہ کی آیات 41 تا 45 کا مطالعہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.