ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: حق اور باطل کی آمیزش پر قرآن کا سخت انتباہ، سورہ بقرہ کی آیات 41 تا 45 کا مطالعہ - Surah Baqarah Verses 41 To 45

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 11, 2024, 7:29 AM IST

فرمان الٰہی کی اس سریز میں آج ہم سورہ بقرۃ کی آیات (41-45) کا مختلف تراجم و تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

Farman e Ilahi
فرمان الٰہی (ETV Bharat)

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور ایمان لے آؤ اس (کتاب) پر جو میں نے نازل کی ہے (یعنی قرآن پر ایسی حالت میں) کہ وہ سچ بتلانے والی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے (یعنی توریت کے کتاب الی ہونے کی تصدیق کرتی ہے) اور مت بنو تم (سب میں) پہلے انکار کرنے والے اس (قرآن) کے اور مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیر کو اور خاص مجھ ہی سے پورے طور پر ڈرو' (3)

3 - یعنی میرے احکام چھوڑ کر اور ان کو بدل کر اور چھپا کر عوام الناس سے دنیائے ذلیل و قلیل کو وصول مت کرو جیسا کہ ان کی عادت تھی۔

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'اور مخلوط مت کرو حق کو ناحق کے ساتھ اور پوشیدہ بھی مت کرو حق کو جس حالت میں کہ تم جانتے ہو۔' (4)

4 - احکام شرعیہ کی تبدیل دو طرح کیا کرتے ہیں ایک تو یہ کہ اس کو ظاہر ہی نہ ہونے دیا۔ یہ کتمان ہے اور اگر چھپائے نہ چھپ سکا اور ظاہر ہو گیا تو پھر اس میں خلط ملط کر دیا یہ لبس ہے حق تعالیٰ نے دونوں سے منع کیا۔

وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)

ترجمہ: 'اور قائم کرو تم لوگ نماز کو (یعنی مسلمان ہو کر) اور دو زکوۃ کو اور عاجزی کرو عاجزی کرنیوالوں کے ساتھ۔' (5)

5 - نماز زے ان کی حب جاہ کم ہو گی زکوۃ سے ان کی حب مال گٹھنے گی۔ تواضع سے باطنی امراض وغیرہ میں کمی آئے گی یہی مرض ان میں زیادہ تھے۔

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'کیا (غضب ہے کہ) کہتے ہو اور لوگوں کو نیک کام کرنے کو ( نیک کام سے مراد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ہے) اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی تو پھر کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔' (6)

6 ۔ اس سے یہ مسئلہ نہیں نکلتا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں۔

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'اور ( اگر تم کو حب مال و جاہ کے غلبہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہو تو مدد لو صبر اور نماز سے اور بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ دشوار نہیں۔'

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو 57 اور میرے غضب سے بچو'

57- تھوڑی قیمت سے مراد وہ دنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، ، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے۔

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔' 58

58- اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اہل عرب بالعموم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ اہل مدینہ ان سے بے حد مرعوب تھے، کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے، رات دن کا ان سے میل جول تھا، اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک ان پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافته، زیادہ متمدن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبیﷺ نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں، ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق تمے کے لوگوں نے بھی آپ کی کی کیا رائے ہے۔ چناچہ یہ سوال یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبی علیہ السلام مدینے تشریف لائے، تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہودی علما کے پاس جا جا کر یہی بات پوچھتے تھے۔ مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید، جو محمد ال السلام پیش کر رہے ہیں غلط ہے، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی غلطی ہے، یا وہ اخلاقی اصول، جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ لی کم پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھلی کھلی تردید کر سکتے تھے، نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی یا اسلام کے خلاف، آپ ایسی عالم کی جماعت کے خلاف، اور آپ میسی یا اسلام کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، کوئی الزام آپ ی کام پر چسپاں کر دیتے تھے، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں، اور طرح طرح کے الجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی الجھیں اور نبی صیلی اسلم اور آپ صلی اسلام کے پیرو وں کو بھی الجھانے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویہ تھا، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چھپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کو خلط ملط کر کے دنیا کو دھوکا نہ دو۔

وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)
ترجمہ: 'نماز قائم کرو ، زکوۃ دو 59، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جھک جاو'

59- نماز اور زکوۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز باجماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سود کھانے لگے تھے۔

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ آپ کو کو بھول جاتے ہو ؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟'

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'صبر اور نماز سے 60 مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے'

60- یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے تو اس دشواری کا علاج صبر اور نماز ہے، ان دو چیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ اس اخلاقی صفت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔'

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ۔'
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)

ترجمہ: 'اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔'

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔'

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر (نہیں ) جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔'

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: کیا حضرت آدم ؑ اور حوا ؑ کو زمین پر سزا کے طور پر اتارا گیا؟ سورہ بقرہ کی آیات 36 تا 40 کا مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور ایمان لے آؤ اس (کتاب) پر جو میں نے نازل کی ہے (یعنی قرآن پر ایسی حالت میں) کہ وہ سچ بتلانے والی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے (یعنی توریت کے کتاب الی ہونے کی تصدیق کرتی ہے) اور مت بنو تم (سب میں) پہلے انکار کرنے والے اس (قرآن) کے اور مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیر کو اور خاص مجھ ہی سے پورے طور پر ڈرو' (3)

3 - یعنی میرے احکام چھوڑ کر اور ان کو بدل کر اور چھپا کر عوام الناس سے دنیائے ذلیل و قلیل کو وصول مت کرو جیسا کہ ان کی عادت تھی۔

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'اور مخلوط مت کرو حق کو ناحق کے ساتھ اور پوشیدہ بھی مت کرو حق کو جس حالت میں کہ تم جانتے ہو۔' (4)

4 - احکام شرعیہ کی تبدیل دو طرح کیا کرتے ہیں ایک تو یہ کہ اس کو ظاہر ہی نہ ہونے دیا۔ یہ کتمان ہے اور اگر چھپائے نہ چھپ سکا اور ظاہر ہو گیا تو پھر اس میں خلط ملط کر دیا یہ لبس ہے حق تعالیٰ نے دونوں سے منع کیا۔

وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)

ترجمہ: 'اور قائم کرو تم لوگ نماز کو (یعنی مسلمان ہو کر) اور دو زکوۃ کو اور عاجزی کرو عاجزی کرنیوالوں کے ساتھ۔' (5)

5 - نماز زے ان کی حب جاہ کم ہو گی زکوۃ سے ان کی حب مال گٹھنے گی۔ تواضع سے باطنی امراض وغیرہ میں کمی آئے گی یہی مرض ان میں زیادہ تھے۔

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'کیا (غضب ہے کہ) کہتے ہو اور لوگوں کو نیک کام کرنے کو ( نیک کام سے مراد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ہے) اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی تو پھر کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔' (6)

6 ۔ اس سے یہ مسئلہ نہیں نکلتا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں۔

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'اور ( اگر تم کو حب مال و جاہ کے غلبہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہو تو مدد لو صبر اور نماز سے اور بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ دشوار نہیں۔'

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو 57 اور میرے غضب سے بچو'

57- تھوڑی قیمت سے مراد وہ دنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، ، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے۔

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔' 58

58- اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اہل عرب بالعموم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ اہل مدینہ ان سے بے حد مرعوب تھے، کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے، رات دن کا ان سے میل جول تھا، اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک ان پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافته، زیادہ متمدن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبیﷺ نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں، ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق تمے کے لوگوں نے بھی آپ کی کی کیا رائے ہے۔ چناچہ یہ سوال یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبی علیہ السلام مدینے تشریف لائے، تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہودی علما کے پاس جا جا کر یہی بات پوچھتے تھے۔ مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید، جو محمد ال السلام پیش کر رہے ہیں غلط ہے، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی غلطی ہے، یا وہ اخلاقی اصول، جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ لی کم پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھلی کھلی تردید کر سکتے تھے، نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی یا اسلام کے خلاف، آپ ایسی عالم کی جماعت کے خلاف، اور آپ میسی یا اسلام کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، کوئی الزام آپ ی کام پر چسپاں کر دیتے تھے، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں، اور طرح طرح کے الجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی الجھیں اور نبی صیلی اسلم اور آپ صلی اسلام کے پیرو وں کو بھی الجھانے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویہ تھا، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چھپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کو خلط ملط کر کے دنیا کو دھوکا نہ دو۔

وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)
ترجمہ: 'نماز قائم کرو ، زکوۃ دو 59، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جھک جاو'

59- نماز اور زکوۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز باجماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سود کھانے لگے تھے۔

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ آپ کو کو بھول جاتے ہو ؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟'

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'صبر اور نماز سے 60 مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے'

60- یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے تو اس دشواری کا علاج صبر اور نماز ہے، ان دو چیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ اس اخلاقی صفت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلۡتُ مُصَدِّقٗا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشۡتَرُواْ بِـَٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗا وَإِيَّٰيَ فَٱتَّقُونِ (41)

ترجمہ: 'اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔'

وَلَا تَلۡبِسُواْ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَٰطِلِ وَتَكۡتُمُواْ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (42)

ترجمہ: 'اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ۔'
وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (43)

ترجمہ: 'اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔'

أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ (44)

ترجمہ: 'کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔'

وَٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلۡخَٰشِعِينَ (45)

ترجمہ: 'اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر (نہیں ) جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔'

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: کیا حضرت آدم ؑ اور حوا ؑ کو زمین پر سزا کے طور پر اتارا گیا؟ سورہ بقرہ کی آیات 36 تا 40 کا مطالعہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.