ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: کیا حضرت آدم ؑ اور حوا ؑ کو زمین پر سزا کے طور پر اتارا گیا؟ سورہ بقرہ کی آیات 36 تا 40 کا مطالعہ - Interpretation Of Verses 36 To 40 Of Surah Baqarah

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 10, 2024, 7:10 AM IST

Updated : Jun 10, 2024, 7:16 AM IST

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی آیات (36-40) کا مولانا محمد اشرف علی تھانوی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کے تراجم و تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

سورہ بقرہ کی آیات 36 تا 40 کا مطالعہ
سورہ بقرہ کی آیات 36 تا 40 کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: پھر لغزش دیدی ان ( آدم اور حوا) کو شیطان نے اس (درخت) کی وجہ سے سو بر طرف کر کے رہا ان کو اس (عیش) سے جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کے نیچے اترو تم میں سے بعضے بعضوں کے دشمن رہیں گے اور تم کو زمین پر چندے ٹھیرنا ہے اور کام چلانا ایک میعاد معین تک۔ ( 2 )

2 ۔ یعنی وہاں بھی جاکر دوام نہ ملے گا بعد چندے وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)

ترجمہ: بعد ازاں حاصل کر لیے آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند الفاظ تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی ان پر یعنی تو بہ قبول کرلی) بیشک وہی ہیں بڑے توبہ قبول کرنے والے بڑے مہربان۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)

ترجمہ: ہم نے حکم فرمایا نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب پھر آوے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت سو جو شخص پیروی کرے گا میری اس ہدایت کی تو نہ کچھ اندیشہ ہوگا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگیں ہونگے۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)

ترجمہ: اور جو لوگ کفر کریں گے اور تکذیب کریں گے ہمارے احکام کی یہ لوگ ہوں گے دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: اے بنی اسرائیل یاد کرو تم لوگ میرے ان احسانوں کو جو کیے ہیں میں نے تم پر اور پورا کرو تم میرے عہد کو پورا کروں گا میں تمہارے عہدوں کو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دیگر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹایا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اُتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن 50 ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔“

50- یعنی انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشات نفس سے د دشمنی کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی، بلکہ اس کے معنی یہ یہ ہیں کہ ایک دشمن دوسرے دشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)

ترجمہ: اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی 51، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا ، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 52

51- یعنی آدم کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے رب سے اپنی خطا معاف کرائیں، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دعا کر سکتے۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے۔

توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا، طریق بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو گیا، پھر سے نظر عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی۔

52- قرآن اس نظریے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بھگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کن نظریات میں سے ایک بڑا گمراہ کن نظریہ ہے، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گارانہ زندگی میں مبتلا ہو گیا، اس کو یہ نظریہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اصلاح کرنا چاہے، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی امید نہیں، جو کچھ تو کر چکا ہے اس کے نتائج بہر حال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بھلائی کی تھی۔ اور جس بھلائی کو رد کر دیتا ہے، اسے اس بنا پر رد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اس قصور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب جرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصور پر دیتا ہے، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم، کٹے سے کٹے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی روش اختیار کرنے کے لیے تیار ہو۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)

ترجمہ: ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جاؤ۔ 53 پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا

53- اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کرلی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوع انسانی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بنا کر جائیں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دار العذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اتارے گئے، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اوپر ٤٨ میں کیا جا چکا ہے۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)

ترجمہ: اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے 54 ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ “ 65

54- یہ آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثار کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہر چیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں ان معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں كتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں، اس کے الفاظ اور انداز بیان اور طرز عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مصنف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق وسباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں ” آیت “ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔

55- یہ نسل انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ” عہد “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اس راستے کی پیروی کرے جو اس کا رب اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ رب کی رضا کس راہ میں ہے۔ ان دو صورتوں کے ماسوا ہر صورت غلط ہے، بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نوع انسانی کی ابتدا کا یہ قصہ سات مقامات پر آیا ہے، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسب ذیل ہیں الاعراف، رکوع ۲ - بنی اسرائیل، رکوع ۷، الكهف رکوع ۷ ، طٰہٰ رکوع ۷ - ص، رکوع ٥ - بائیبل کی کتاب پیدائش، باب اول، دوم و سوم میں بھی یہ قصہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحب نظر انسان محسوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔ آدم کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے ؟ تو اللہ تعالی نے جواب دیا۔ تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں " بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: 'اے بنی اسرائیل 56 ! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو'

56- اسرائیل کے معنی ہیں عبد الله یا بندہ خدا۔ یہ حضرت یعقوب کا لقب تھا، جو ان کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم" کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکین عرب کی طرف بھی کلام کا رخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے ان لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد علیه السلام کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسب ذیل باتوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے

اولاً ، اس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی امت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاح کا عنصر موجود ہے، انہیں اس صداقت پر ایمان لانے اور اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد اٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور یہ نبی لی لی اسلام وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دنیا کو بھی اس کی طرف بلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کرلو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اٹھے ہیں، ان کا ساتھ دو۔

ثانیاً ، اس کا منشا عام یہودیوں پر حجت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ وہی دین ہے، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اصول دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے استشہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے با وجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں، وسوسہ اندازیوں، کج بحثیوں اور مکاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد علی اسلام کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پھول سکے۔ اس طرح اتمام حجت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اس کی آنکھیں کھل گئیں، دوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکین عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہو گئیں کہ وہ اس جرات کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔ ثالثا، پچھلے چار رکوعوں میں نوع انسانی کو دعوت عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوام عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔

رابعا، اس سے پیروان محمد صلی علیہ السلام کو سبق دینا مقصود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دین حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہود و نصاری پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی م کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ لی ہم نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں، تو اسی میں گھسو گے۔ صحابہ تم بھی صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ، کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا، اور کون ؟ نبی اکرم علم کا ارشاد محض ایک تو پیچ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی امتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہور کرتا رہا ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: تو شیطان نے اس سے (یعنی جنت سے ) انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)
ترجمہ: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)
ترجمہ: ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)
ترجمہ: اور وہ جو کفر کریں گے اور میری آیتیں جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں ، ان کو ہمیشہ اس میں رہنا۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو -

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: پھر لغزش دیدی ان ( آدم اور حوا) کو شیطان نے اس (درخت) کی وجہ سے سو بر طرف کر کے رہا ان کو اس (عیش) سے جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کے نیچے اترو تم میں سے بعضے بعضوں کے دشمن رہیں گے اور تم کو زمین پر چندے ٹھیرنا ہے اور کام چلانا ایک میعاد معین تک۔ ( 2 )

2 ۔ یعنی وہاں بھی جاکر دوام نہ ملے گا بعد چندے وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)

ترجمہ: بعد ازاں حاصل کر لیے آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند الفاظ تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی ان پر یعنی تو بہ قبول کرلی) بیشک وہی ہیں بڑے توبہ قبول کرنے والے بڑے مہربان۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)

ترجمہ: ہم نے حکم فرمایا نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب پھر آوے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت سو جو شخص پیروی کرے گا میری اس ہدایت کی تو نہ کچھ اندیشہ ہوگا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگیں ہونگے۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)

ترجمہ: اور جو لوگ کفر کریں گے اور تکذیب کریں گے ہمارے احکام کی یہ لوگ ہوں گے دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: اے بنی اسرائیل یاد کرو تم لوگ میرے ان احسانوں کو جو کیے ہیں میں نے تم پر اور پورا کرو تم میرے عہد کو پورا کروں گا میں تمہارے عہدوں کو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دیگر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹایا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اُتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن 50 ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔“

50- یعنی انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشات نفس سے د دشمنی کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی، بلکہ اس کے معنی یہ یہ ہیں کہ ایک دشمن دوسرے دشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)

ترجمہ: اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی 51، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا ، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 52

51- یعنی آدم کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے رب سے اپنی خطا معاف کرائیں، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دعا کر سکتے۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے۔

توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا، طریق بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو گیا، پھر سے نظر عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی۔

52- قرآن اس نظریے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بھگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کن نظریات میں سے ایک بڑا گمراہ کن نظریہ ہے، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گارانہ زندگی میں مبتلا ہو گیا، اس کو یہ نظریہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اصلاح کرنا چاہے، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی امید نہیں، جو کچھ تو کر چکا ہے اس کے نتائج بہر حال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بھلائی کی تھی۔ اور جس بھلائی کو رد کر دیتا ہے، اسے اس بنا پر رد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اس قصور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب جرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصور پر دیتا ہے، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم، کٹے سے کٹے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی روش اختیار کرنے کے لیے تیار ہو۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)

ترجمہ: ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جاؤ۔ 53 پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا

53- اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کرلی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوع انسانی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بنا کر جائیں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دار العذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اتارے گئے، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اوپر ٤٨ میں کیا جا چکا ہے۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)

ترجمہ: اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے 54 ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ “ 65

54- یہ آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثار کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہر چیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں ان معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں كتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں، اس کے الفاظ اور انداز بیان اور طرز عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مصنف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق وسباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں ” آیت “ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔

55- یہ نسل انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ” عہد “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اس راستے کی پیروی کرے جو اس کا رب اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ رب کی رضا کس راہ میں ہے۔ ان دو صورتوں کے ماسوا ہر صورت غلط ہے، بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نوع انسانی کی ابتدا کا یہ قصہ سات مقامات پر آیا ہے، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسب ذیل ہیں الاعراف، رکوع ۲ - بنی اسرائیل، رکوع ۷، الكهف رکوع ۷ ، طٰہٰ رکوع ۷ - ص، رکوع ٥ - بائیبل کی کتاب پیدائش، باب اول، دوم و سوم میں بھی یہ قصہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحب نظر انسان محسوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔ آدم کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے ؟ تو اللہ تعالی نے جواب دیا۔ تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں " بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: 'اے بنی اسرائیل 56 ! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو'

56- اسرائیل کے معنی ہیں عبد الله یا بندہ خدا۔ یہ حضرت یعقوب کا لقب تھا، جو ان کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم" کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکین عرب کی طرف بھی کلام کا رخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے ان لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد علیه السلام کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسب ذیل باتوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے

اولاً ، اس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی امت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاح کا عنصر موجود ہے، انہیں اس صداقت پر ایمان لانے اور اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد اٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور یہ نبی لی لی اسلام وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دنیا کو بھی اس کی طرف بلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کرلو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اٹھے ہیں، ان کا ساتھ دو۔

ثانیاً ، اس کا منشا عام یہودیوں پر حجت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ وہی دین ہے، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اصول دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے استشہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے با وجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں، وسوسہ اندازیوں، کج بحثیوں اور مکاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد علی اسلام کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پھول سکے۔ اس طرح اتمام حجت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اس کی آنکھیں کھل گئیں، دوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکین عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہو گئیں کہ وہ اس جرات کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔ ثالثا، پچھلے چار رکوعوں میں نوع انسانی کو دعوت عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوام عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔

رابعا، اس سے پیروان محمد صلی علیہ السلام کو سبق دینا مقصود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دین حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہود و نصاری پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی م کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ لی ہم نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں، تو اسی میں گھسو گے۔ صحابہ تم بھی صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ، کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا، اور کون ؟ نبی اکرم علم کا ارشاد محض ایک تو پیچ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی امتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہور کرتا رہا ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيۡطَٰنُ عَنۡهَا فَأَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوّٞۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرّٞ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٖ (36)

ترجمہ: تو شیطان نے اس سے (یعنی جنت سے ) انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٖ فَتَابَ عَلَيۡهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (37)
ترجمہ: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (38)
ترجمہ: ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (39)
ترجمہ: اور وہ جو کفر کریں گے اور میری آیتیں جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں ، ان کو ہمیشہ اس میں رہنا۔

يَٰبَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتِيَ ٱلَّتِيٓ أَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَأَوۡفُواْ بِعَهۡدِيٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ وَإِيَّٰيَ فَٱرۡهَبُونِ (40)

ترجمہ: اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو -

Last Updated : Jun 10, 2024, 7:16 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.