ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: اللہ نے فرشتوں کو انسانوں کے سجدے کا حکم کیوں دیا؟ سورہ بقرہ کی آیات 31 تا 35 کا مطالعہ - Interpretation Of Verses 31 To 35 Of Surah Baqarah

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 9, 2024, 7:13 AM IST

Updated : Jun 9, 2024, 7:36 AM IST

فہمِ قرآن کی اس سیریز میں آج ہم سورہ بقرۃ کی آیات (31-35) کا تفسیر بیان القرآن، تفہیم القرآن اور کنز الایمان کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

Farman e Ilahi
فرمان الٰہی (Photo: ETV Bharat)

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اور علم دے دیا اللہ تعالی نے (حضرت) آدم ( علیہ السلام) کو (ان کو پیدا کر کے) سب چیزوں کے اسماء کا ( 7 ) پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کردیں پھر فرمایا کہ بتلاؤ مجھ کو اسماء ان چیزوں کے (یعنی مع ان کے آثار و خواص کے) اگر تم سچے ہو۔'

7 - یعنی تمام موجودات روئے زمین کے اسما و خواص کا علم دے دیا۔

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: '(فرشتوں) نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ہم کو علم ہی نہیں مگر وہی جو کچھ ہم کو آپ نے علم دیا بیشک آپ بڑے علم والے ہیں حکمت والے ہیں۔'

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: '(کہ جس قدر جس کے لیے مصلحت جانا اسی قدر فهم و علم عطا فرمایا) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم انکو ان چیزوں کے اسماء بتادو سو جب بتلادیے انکو آدم نے ان چیزوں کے اسماء تو (حق تعالیٰ نے) فرمایا (دیکھو) میں تم سے کہتا نہ تھا کہ بیشک میں جانتا ہوں تمام پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی اور جانتا ہوں جس (بات) کو تم ظاہر کر دیتے ہو اور جس (بات) کو دل میں رکھتے ہو۔'

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)

ترجمہ: 'اور جس وقت حکم دیا ہم نے فرشتوں کو ( اور جنوں کو بھی) کہ سجدے میں گر جاؤ آدم کے سامنے (8) سو سب سجدے میں گرپڑے بجز ابلیس کے اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا اور ہو گیا کافروں میں سے۔' (9)

8 - غالبا کو کسی فرشته فرشتوں کو بلا واسطہ حکم کیا ہوگا اور جنوں کو وغیرہ کے ذریعے سے کہا گیا ہو گا۔

9 ۔ اس پر تکفیر کا فتوی اس لیے دیا گیا کہ اس نے حکم الہی کے مقابلہ میں تکبر کیا اور اس کے قبول کرنے میں عار کیا اور اس کو خلاف حکمت و خلاف مصلحت ٹھیرایا۔

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)

ترجمہ: 'اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم رہا کرو تم اور تمہاری بیوی بہشت میں پھر کھاؤ دونوں اس میں سے با فراغت جس جگہ سے چاہو اور نزدیک نہ جائیو اس درخت کے ورنہ تم بھی ان ہی میں (شمار) ہو جاؤ گے جو اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔' (1)

1 - خدا جانے وہ کیا درخت تھا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے 42 ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ” اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گام تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاو'

42- انسان کے علم کی صورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے سے اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیاء پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیاء کا علم دینا تھا۔

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: 'انہوں نے عرض کیا ” نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے ۔ 43 حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔“

43- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدود ہے جس سے اس کا تعلق ہے۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں، وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ یہی حال دوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے۔ انسان کو ان کے برعکس جامع علم دیا گیا ہے۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے، وہ فرشتوں کو میسر نہیں ہے۔

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: پھر اللہ نے آدم سے کہا ” تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ۔“ جب اُس نے ان کو اُن سب کے نام بتادیے 44 ، تو اللہ نے فرمایا ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں۔“

44- یہ مظاہرہ فرشتوں کے پہلے شبہہ کا جواب تھا۔ گویا اس طریقے سے اللہ تعالی نے انہیں بتایا کہ میں آدم کو صرف اختیارات ہی نہیں دے رہا ہوں، بلکہ علم بھی دے رہا ہوں۔ اس کے تقرر سے فساد کا جو اندیشہ تمہیں ہوا وہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو صلاح کا بھی ہے اور وہ فساد کے پہلو سے زیادہ وزنی اور زیادہ بیش قیمت ہے۔ حکیم کا یہ کام نہیں ہے کہ چھوٹی خرابی کی وجہ سے بڑی بہتری کو نظر انداز کر دے۔

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)

ترجمہ: 'پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب 45 جھک گئے، مگر ابلیس 46 نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔' 47

45- “ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مسخر ہو جانے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جارہا تھا، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط، جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو، جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کر لینے کا موقع دے دیں، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل وہ کام متعلق سے وہ، وہ اپنے دائرے کی ہو، وہ حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے، دونوں صورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اذن دے رہے ہیں، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرمانروا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صوبے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے، تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے، اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرمانروا کا اشارہ ہو جائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے، تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کردی ہے۔ حتی کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے، تو وہی ماتحت و خُدام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑ یاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دار الفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سر بسجود ہو جانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخر ہو جانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

46- ابلیس لفظی ترجمہ ” انتہائی مایوس “۔ اصطلاحاً یہ اس جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مسخر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسل انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ” الشیطان “ بھی کہا جاتا ہے۔ در حقیقت شیطان اور ابلیس وہ بھی انسان کی بھی محض کسی مجرد قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ طرح ایک صاحب تشخص ہستی ہے۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کردی ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا، جو فرشتوں سے الگ، مخلوقات کی ایک مستقل صنف ہیں۔

47- ان الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جنوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” وہ کافروں میں سے تھا “۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جنوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ” شیاطین “ کا لفظ انہی جنوں اور ان کی ذریت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے، اور جہاں شیاطین سے مراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطین جن مراد ہوتے ہیں۔

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)

ترجمہ: 'پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا 48 ، ورنہ ظالموں 49 میں شمار ہو گے۔“

48- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقریر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رحجانات کی آزمائش ہو جائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتادیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پاؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔

اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کرنا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہ انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جاؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محروم کیسے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محروم ہی رہو گے۔ اپنے اس مقام لائق، اپنی اس فردوس گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

49- دو ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ ” ظلم “ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے، وہ در حقیقت تین بڑے بنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اولاً خدا کا حق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے۔ ثانیاً ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضائے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے، تو ا لنا خود اپنا اپنا حق، کیونکہ اس پر اس در حقیقت ان پر ظلم کیا۔ کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔ انہی وجوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ'

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: 'بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔'

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: 'فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔'

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)
ترجمہ: 'اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔'

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)
ترجمہ: 'اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے۔'

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: اللہ نے زمین پر انسانوں کو اپنا خلیفہ کیوں بنایا؟ سورہ بقرہ کی آیات 26 تا 30 کا مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اور علم دے دیا اللہ تعالی نے (حضرت) آدم ( علیہ السلام) کو (ان کو پیدا کر کے) سب چیزوں کے اسماء کا ( 7 ) پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کردیں پھر فرمایا کہ بتلاؤ مجھ کو اسماء ان چیزوں کے (یعنی مع ان کے آثار و خواص کے) اگر تم سچے ہو۔'

7 - یعنی تمام موجودات روئے زمین کے اسما و خواص کا علم دے دیا۔

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: '(فرشتوں) نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ہم کو علم ہی نہیں مگر وہی جو کچھ ہم کو آپ نے علم دیا بیشک آپ بڑے علم والے ہیں حکمت والے ہیں۔'

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: '(کہ جس قدر جس کے لیے مصلحت جانا اسی قدر فهم و علم عطا فرمایا) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم انکو ان چیزوں کے اسماء بتادو سو جب بتلادیے انکو آدم نے ان چیزوں کے اسماء تو (حق تعالیٰ نے) فرمایا (دیکھو) میں تم سے کہتا نہ تھا کہ بیشک میں جانتا ہوں تمام پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی اور جانتا ہوں جس (بات) کو تم ظاہر کر دیتے ہو اور جس (بات) کو دل میں رکھتے ہو۔'

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)

ترجمہ: 'اور جس وقت حکم دیا ہم نے فرشتوں کو ( اور جنوں کو بھی) کہ سجدے میں گر جاؤ آدم کے سامنے (8) سو سب سجدے میں گرپڑے بجز ابلیس کے اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا اور ہو گیا کافروں میں سے۔' (9)

8 - غالبا کو کسی فرشته فرشتوں کو بلا واسطہ حکم کیا ہوگا اور جنوں کو وغیرہ کے ذریعے سے کہا گیا ہو گا۔

9 ۔ اس پر تکفیر کا فتوی اس لیے دیا گیا کہ اس نے حکم الہی کے مقابلہ میں تکبر کیا اور اس کے قبول کرنے میں عار کیا اور اس کو خلاف حکمت و خلاف مصلحت ٹھیرایا۔

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)

ترجمہ: 'اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم رہا کرو تم اور تمہاری بیوی بہشت میں پھر کھاؤ دونوں اس میں سے با فراغت جس جگہ سے چاہو اور نزدیک نہ جائیو اس درخت کے ورنہ تم بھی ان ہی میں (شمار) ہو جاؤ گے جو اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔' (1)

1 - خدا جانے وہ کیا درخت تھا۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے 42 ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ” اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گام تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاو'

42- انسان کے علم کی صورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے سے اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیاء پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیاء کا علم دینا تھا۔

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: 'انہوں نے عرض کیا ” نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے ۔ 43 حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔“

43- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدود ہے جس سے اس کا تعلق ہے۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں، وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ یہی حال دوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے۔ انسان کو ان کے برعکس جامع علم دیا گیا ہے۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے، وہ فرشتوں کو میسر نہیں ہے۔

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: پھر اللہ نے آدم سے کہا ” تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ۔“ جب اُس نے ان کو اُن سب کے نام بتادیے 44 ، تو اللہ نے فرمایا ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں۔“

44- یہ مظاہرہ فرشتوں کے پہلے شبہہ کا جواب تھا۔ گویا اس طریقے سے اللہ تعالی نے انہیں بتایا کہ میں آدم کو صرف اختیارات ہی نہیں دے رہا ہوں، بلکہ علم بھی دے رہا ہوں۔ اس کے تقرر سے فساد کا جو اندیشہ تمہیں ہوا وہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو صلاح کا بھی ہے اور وہ فساد کے پہلو سے زیادہ وزنی اور زیادہ بیش قیمت ہے۔ حکیم کا یہ کام نہیں ہے کہ چھوٹی خرابی کی وجہ سے بڑی بہتری کو نظر انداز کر دے۔

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)

ترجمہ: 'پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب 45 جھک گئے، مگر ابلیس 46 نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔' 47

45- “ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مسخر ہو جانے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جارہا تھا، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط، جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو، جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کر لینے کا موقع دے دیں، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل وہ کام متعلق سے وہ، وہ اپنے دائرے کی ہو، وہ حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے، دونوں صورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اذن دے رہے ہیں، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرمانروا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صوبے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے، تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے، اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرمانروا کا اشارہ ہو جائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے، تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کردی ہے۔ حتی کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے، تو وہی ماتحت و خُدام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑ یاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دار الفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سر بسجود ہو جانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخر ہو جانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

46- ابلیس لفظی ترجمہ ” انتہائی مایوس “۔ اصطلاحاً یہ اس جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مسخر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسل انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ” الشیطان “ بھی کہا جاتا ہے۔ در حقیقت شیطان اور ابلیس وہ بھی انسان کی بھی محض کسی مجرد قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ طرح ایک صاحب تشخص ہستی ہے۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کردی ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا، جو فرشتوں سے الگ، مخلوقات کی ایک مستقل صنف ہیں۔

47- ان الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جنوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” وہ کافروں میں سے تھا “۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جنوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ” شیاطین “ کا لفظ انہی جنوں اور ان کی ذریت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے، اور جہاں شیاطین سے مراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطین جن مراد ہوتے ہیں۔

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)

ترجمہ: 'پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا 48 ، ورنہ ظالموں 49 میں شمار ہو گے۔“

48- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقریر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رحجانات کی آزمائش ہو جائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتادیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پاؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔

اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کرنا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہ انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جاؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محروم کیسے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محروم ہی رہو گے۔ اپنے اس مقام لائق، اپنی اس فردوس گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

49- دو ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ ” ظلم “ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے، وہ در حقیقت تین بڑے بنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اولاً خدا کا حق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے۔ ثانیاً ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضائے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے، تو ا لنا خود اپنا اپنا حق، کیونکہ اس پر اس در حقیقت ان پر ظلم کیا۔ کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔ انہی وجوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِي بِأَسۡمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ (31)

ترجمہ: 'اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ'

قَالُواْ سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (32)

ترجمہ: 'بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔'

قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئۡهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسۡمَآئِهِمۡ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكُمۡ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ غَيۡبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَأَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا كُنتُمۡ تَكۡتُمُونَ (33)

ترجمہ: 'فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔'

وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأٓدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰ وَٱسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (34)
ترجمہ: 'اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔'

وَقُلۡنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسۡكُنۡ أَنتَ وَزَوۡجُكَ ٱلۡجَنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (35)
ترجمہ: 'اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے۔'

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: اللہ نے زمین پر انسانوں کو اپنا خلیفہ کیوں بنایا؟ سورہ بقرہ کی آیات 26 تا 30 کا مطالعہ

Last Updated : Jun 9, 2024, 7:36 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.