ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: اللہ نے زمین پر انسانوں کو اپنا خلیفہ کیوں بنایا؟ سورہ بقرہ کی آیات 26 تا 30 کا مطالعہ - Interpretation Of Verses 26 To 30 Of Surah Baqarah

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 8, 2024, 6:59 AM IST

'فرمان الٰہی' میں آج ہم سورہ بقرۃ کی آیات (26-30) کا مولانا محمد اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی اور مولانا مودودی کے تراجم اور ان کی تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

Interpretation of Verses 26 to 30 of Surah Baqarah
سورہ بقرہ کی آیات 26 تا 30 کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ

ترجمہ: ہاں واقعی اللہ تعالیٰ تو نہیں شرماتے اس بات سے کہ بیان کر دیں کوئی مثال بھی خواہ مچھر کی ہو خواہ اس سے بھی بڑھی ہوئی ہو سو جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں (خواہ کچھ ہی ہو) وہ تو یقین کرینگے کہ بیشک یہ مثال تو بہت موقع کی ہے ان کے رب کی جانب سے اور رہ گئے) وہ لوگ جو کافر ہو چکے ہیں سو (چاہے کچھ بھی ہو جائے) وہ یوں ہی کہتے رہیں گے کہ وہ کون مطلب ہوگا جس کا قصد کیا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس (حقیر) مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالی اس (مثال کی وجہ سے) بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو اور گمراہ نہیں کرتے۔

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: (اللہ تعالی ) اس مثال سے کسی کو مگر صرف پیچکمی کرنیوالوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدہ کو جو اللہ تعالی سے کر چکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان (تعلقات) کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا (1) اور فساد کرتے رہتے ہیں زمین میں پس یہ لوگ (پورے) خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ (2)

1 ۔ اس میں تمام تعلقات شرعیہ داخل ہو گئے۔ 2 ۔ یہاں تک اس شبہ کے جواب کا سلسلہ تھا جو کفار نے پیش کیا تھا کہ کلام الہی میں ایسی کم قدر چیزوں کا ذکر کیوں آیا اب اس مضمون کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس سے اوپر والی آیت یا ایھا الناس اعبدوا میں متعلق توحید کے مذکور ہوا تھا۔

كَيۡفَ تَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمۡ أَمۡوَٰتٗا فَأَحۡيَٰكُمۡۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيكُمۡ ثُمَّ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (28)

ترجمہ: بھلا کیونکر ناسپاسی کرتے ہو اللہ کے ساتھ حالانکہ تھے تم محض بے جان سو تم کو جاندار کیا پھر تم کو موت دیں گے پھر زندہ کرینگے (یعنی قیامت کے دن پھر ان ہی کے پاس لے جائے جاؤ گے۔

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے (فائدے کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہیں سب کا سب پھر توجه فرمائی آسمان کی طرف سو درست کر کے بنائے سات آسمان (3) اور وہ تو سب چیزوں کے جاننے والے ہیں۔

3 - اول زمین میں مادہ بنا اور ہنوز اس کی ہیبت موجودہ نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو صورت دخان تھا۔ اس کے بعد زمین کی جو ہیت موجود پر پھیلا دی گئی پھر اس پر پہاڑ درخت وغیرہ پیدا کیے گئے پھر اس مادہ سیالہ کے سات آسمان بنادیے گئے۔

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: اور جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے کہ ضرور میں بناؤں گا زمین میں ایک نائب (4) (فرشتے) کہنے لگے کیا آپ پیدا کرینگے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد کرینگے اور خونریزیاں کرینگے اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں محمد اللہ اور تقدیس کرتے رہتے ہیں آپ کی۔ (5 ) (حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے۔ (6)

4۔ یعنی وہ میرا نائب ہوگا کہ اپنے احکام شرعیہ کے اجرا و نفاذ کی خدمت اس کے سپرد کروں گا۔ 5 ۔ یہ بطور اعتراض کے نہیں کہا نہ اپنا حق جتلایا بلکہ یہ فرشتوں کی عرض معروض اظہار نیاز مندی کے واسطے تھی۔

6۔ یعنی جو امر تمہارے نزدیک مانع تخلیق بنی آدم ہے وہی واقع میں باعث انکی تخلیق کا ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ

ترجمہ: 'ہاں ، اللہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ 28 جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہے ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار ؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ 29 اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کر تا ہے، جو فاسق ہیں' 30

28- یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر توضیح مدعا کے لیے مکڑی، مکھی، مچھر وغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں، ان پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلام الہی ہے، جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اس میں یہ فضولیات نہ ہوتیں۔

29- یعنی جو لوگ بات کو سمجھنا نہیں چاہتے، حقیقت کی جستجو ہی نہیں رکھتے، ان کی نگاہیں تو بس ظاہری الفاظ میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان چیزوں سے الٹے نتائج نکال کر حق سے اور زیادہ دور چلے جاتے ہیں۔ بر عکس اس کے جو خود حقیقت کے طالب ہیں اور صحیح بصیرت رکھتے ہیں، ان کو انہی باتوں میں حکمت کے جوہر نظر آتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ ایسی حکیمانہ باتیں اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہیں۔

30- فاسق نافرمان، اطاعت کی حد سے نکل جانے والا۔

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: 'اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، 31 اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، 32 اور زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں ۔ 33 حقیقت میں یہ لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں'

31- بادشاہ اپنے ملازموں اور رعایا کے نام جو فرمان یا ہدایت جاری کرتا ہے، ان کو عربی محاورے میں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کی تعمیل رعایا پر واجب ہوتی ہے۔ یہاں عہد کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے، جس کی رو سے تمام نوع انسانی صرف اسی کی بندگی، اطاعت اور پرستش کرنے پر مامور ہے۔ ” مضبوط باندھ لینے کے بعد “ سے اشارہ اس طرف ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت تمام نوع انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا اقرار لے لیا گیا تھا۔ سورہ اعراف، آیت ۱۷۲ میں اس عہد و اقرار پر نسبتہ زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

32- یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے، اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدن و اخلاق کی پوری دنیا پر، جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلقات تک پھیلی ہوئی ہے، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے۔ روابط کو کاٹنے سے مراد محض تعلقات انسانی کا انقطاع ہی نہیں ہے، بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے، جو قطع روابط کا ہے، یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظام اخلاق و تمدن کی برد باری۔

33- ان تین جملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کردی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے، اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے، وہی فاسق ہے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (28)

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: 'وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان 34 استوار کیے ۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔' 35

34- سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے، اس کا تعین مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصورات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی تصور کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔

35- اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کرنے کی جرات کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے، جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی۔ دوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا علم رکھتا ہے، جو در حقیقت علم کا سرچشمہ ہے، اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے، جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو، تو آخر اس سے رو گردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے ؟

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: 36 پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں 37 سے کہا تھا کہ ”میں زمین میں ایک خلیفہ 38 بنانے والا ہوں“ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ 39 آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں 40 “ فرمایا ” میں 66 جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے 41“

36- اوپر کے رکوع میں بندگی رب کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے، پروردگار ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو، اس کا مالک و مدبر وہی ہے، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے۔

اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوع انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

37- ملک کے اصل معنی عربی میں " پیامبر “ کے ہیں۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستاده یا فرشتہ ہے۔ یہ محض مجرد قوتیں نہیں ہیں، جو تشخص نہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں، جن سے اللہ اپنی اس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنت الہی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کردی۔

38- خلیفہ وہ جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔

39- یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا۔ فرشتوں کی کیا خلیفہ “ کے مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں۔ وہ لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیر تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنت کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دے جائیں، تو سلطنت کے جس حصے میں بھی ایسا کیا جائے گا، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے۔

40- اس فقرے سے فرشتوں کا مدعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے، ہم اس کے مستحق ہیں، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے، آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سر گرم ہیں، مرضی مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدام ادب کر رہے ہیں، اب کمی کس چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو ؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے۔ (تسبیح کا لفظ ذو معنیین ہے۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں، ایک تقدیس کا اظهار و بیان، دوسرے پاک کرنا) .

41- یہ فرشتوں کے دوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ (26)

ترجمہ: 'بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے ، وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر، وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصُود ہے ، اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔'

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: 'وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد، اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔'

كَيۡفَ تَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمۡ أَمۡوَٰتٗا فَأَحۡيَٰكُمۡۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيكُمۡ ثُمَّ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (28)

ترجمہ: 'بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے ، حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں جِلایا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں جِلائے گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے۔'

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: 'وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے۔'

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: 'اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔'

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ

ترجمہ: ہاں واقعی اللہ تعالیٰ تو نہیں شرماتے اس بات سے کہ بیان کر دیں کوئی مثال بھی خواہ مچھر کی ہو خواہ اس سے بھی بڑھی ہوئی ہو سو جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں (خواہ کچھ ہی ہو) وہ تو یقین کرینگے کہ بیشک یہ مثال تو بہت موقع کی ہے ان کے رب کی جانب سے اور رہ گئے) وہ لوگ جو کافر ہو چکے ہیں سو (چاہے کچھ بھی ہو جائے) وہ یوں ہی کہتے رہیں گے کہ وہ کون مطلب ہوگا جس کا قصد کیا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس (حقیر) مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالی اس (مثال کی وجہ سے) بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو اور گمراہ نہیں کرتے۔

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: (اللہ تعالی ) اس مثال سے کسی کو مگر صرف پیچکمی کرنیوالوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدہ کو جو اللہ تعالی سے کر چکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان (تعلقات) کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا (1) اور فساد کرتے رہتے ہیں زمین میں پس یہ لوگ (پورے) خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ (2)

1 ۔ اس میں تمام تعلقات شرعیہ داخل ہو گئے۔ 2 ۔ یہاں تک اس شبہ کے جواب کا سلسلہ تھا جو کفار نے پیش کیا تھا کہ کلام الہی میں ایسی کم قدر چیزوں کا ذکر کیوں آیا اب اس مضمون کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس سے اوپر والی آیت یا ایھا الناس اعبدوا میں متعلق توحید کے مذکور ہوا تھا۔

كَيۡفَ تَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمۡ أَمۡوَٰتٗا فَأَحۡيَٰكُمۡۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيكُمۡ ثُمَّ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (28)

ترجمہ: بھلا کیونکر ناسپاسی کرتے ہو اللہ کے ساتھ حالانکہ تھے تم محض بے جان سو تم کو جاندار کیا پھر تم کو موت دیں گے پھر زندہ کرینگے (یعنی قیامت کے دن پھر ان ہی کے پاس لے جائے جاؤ گے۔

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے (فائدے کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہیں سب کا سب پھر توجه فرمائی آسمان کی طرف سو درست کر کے بنائے سات آسمان (3) اور وہ تو سب چیزوں کے جاننے والے ہیں۔

3 - اول زمین میں مادہ بنا اور ہنوز اس کی ہیبت موجودہ نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو صورت دخان تھا۔ اس کے بعد زمین کی جو ہیت موجود پر پھیلا دی گئی پھر اس پر پہاڑ درخت وغیرہ پیدا کیے گئے پھر اس مادہ سیالہ کے سات آسمان بنادیے گئے۔

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: اور جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے کہ ضرور میں بناؤں گا زمین میں ایک نائب (4) (فرشتے) کہنے لگے کیا آپ پیدا کرینگے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد کرینگے اور خونریزیاں کرینگے اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں محمد اللہ اور تقدیس کرتے رہتے ہیں آپ کی۔ (5 ) (حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے۔ (6)

4۔ یعنی وہ میرا نائب ہوگا کہ اپنے احکام شرعیہ کے اجرا و نفاذ کی خدمت اس کے سپرد کروں گا۔ 5 ۔ یہ بطور اعتراض کے نہیں کہا نہ اپنا حق جتلایا بلکہ یہ فرشتوں کی عرض معروض اظہار نیاز مندی کے واسطے تھی۔

6۔ یعنی جو امر تمہارے نزدیک مانع تخلیق بنی آدم ہے وہی واقع میں باعث انکی تخلیق کا ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ

ترجمہ: 'ہاں ، اللہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ 28 جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہے ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار ؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ 29 اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کر تا ہے، جو فاسق ہیں' 30

28- یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر توضیح مدعا کے لیے مکڑی، مکھی، مچھر وغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں، ان پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلام الہی ہے، جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اس میں یہ فضولیات نہ ہوتیں۔

29- یعنی جو لوگ بات کو سمجھنا نہیں چاہتے، حقیقت کی جستجو ہی نہیں رکھتے، ان کی نگاہیں تو بس ظاہری الفاظ میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان چیزوں سے الٹے نتائج نکال کر حق سے اور زیادہ دور چلے جاتے ہیں۔ بر عکس اس کے جو خود حقیقت کے طالب ہیں اور صحیح بصیرت رکھتے ہیں، ان کو انہی باتوں میں حکمت کے جوہر نظر آتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ ایسی حکیمانہ باتیں اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہیں۔

30- فاسق نافرمان، اطاعت کی حد سے نکل جانے والا۔

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: 'اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، 31 اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، 32 اور زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں ۔ 33 حقیقت میں یہ لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں'

31- بادشاہ اپنے ملازموں اور رعایا کے نام جو فرمان یا ہدایت جاری کرتا ہے، ان کو عربی محاورے میں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کی تعمیل رعایا پر واجب ہوتی ہے۔ یہاں عہد کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے، جس کی رو سے تمام نوع انسانی صرف اسی کی بندگی، اطاعت اور پرستش کرنے پر مامور ہے۔ ” مضبوط باندھ لینے کے بعد “ سے اشارہ اس طرف ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت تمام نوع انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا اقرار لے لیا گیا تھا۔ سورہ اعراف، آیت ۱۷۲ میں اس عہد و اقرار پر نسبتہ زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

32- یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے، اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدن و اخلاق کی پوری دنیا پر، جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلقات تک پھیلی ہوئی ہے، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے۔ روابط کو کاٹنے سے مراد محض تعلقات انسانی کا انقطاع ہی نہیں ہے، بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے، جو قطع روابط کا ہے، یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظام اخلاق و تمدن کی برد باری۔

33- ان تین جملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کردی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے، اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے، وہی فاسق ہے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (28)

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: 'وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان 34 استوار کیے ۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔' 35

34- سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے، اس کا تعین مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصورات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی تصور کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔

35- اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کرنے کی جرات کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے، جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی۔ دوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا علم رکھتا ہے، جو در حقیقت علم کا سرچشمہ ہے، اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے، جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو، تو آخر اس سے رو گردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے ؟

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: 36 پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں 37 سے کہا تھا کہ ”میں زمین میں ایک خلیفہ 38 بنانے والا ہوں“ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ 39 آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں 40 “ فرمایا ” میں 66 جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے 41“

36- اوپر کے رکوع میں بندگی رب کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے، پروردگار ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو، اس کا مالک و مدبر وہی ہے، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے۔

اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوع انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

37- ملک کے اصل معنی عربی میں " پیامبر “ کے ہیں۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستاده یا فرشتہ ہے۔ یہ محض مجرد قوتیں نہیں ہیں، جو تشخص نہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں، جن سے اللہ اپنی اس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنت الہی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کردی۔

38- خلیفہ وہ جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔

39- یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا۔ فرشتوں کی کیا خلیفہ “ کے مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں۔ وہ لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیر تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنت کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دے جائیں، تو سلطنت کے جس حصے میں بھی ایسا کیا جائے گا، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے۔

40- اس فقرے سے فرشتوں کا مدعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے، ہم اس کے مستحق ہیں، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے، آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سر گرم ہیں، مرضی مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدام ادب کر رہے ہیں، اب کمی کس چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو ؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے۔ (تسبیح کا لفظ ذو معنیین ہے۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں، ایک تقدیس کا اظهار و بیان، دوسرے پاک کرنا) .

41- یہ فرشتوں کے دوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡيِۦٓ أَن يَضۡرِبَ مَثَلٗا مَّا بَعُوضَةٗ فَمَا فَوۡقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرٗا وَيَهۡدِي بِهِۦ كَثِيرٗاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلۡفَٰسِقِينَ (26)

ترجمہ: 'بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے ، وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر، وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصُود ہے ، اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔'

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡخَٰسِرُونَ (27)

ترجمہ: 'وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد، اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔'

كَيۡفَ تَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمۡ أَمۡوَٰتٗا فَأَحۡيَٰكُمۡۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيكُمۡ ثُمَّ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (28)

ترجمہ: 'بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے ، حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں جِلایا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں جِلائے گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے۔'

هُوَ ٱلَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا ثُمَّ ٱسۡتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَٰتٖۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٞ (29)

ترجمہ: 'وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے۔'

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (30)

ترجمہ: 'اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.