- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَـٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَـٰرَتُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ مُهْتَدِينَ (16)
ترجمہ: 'یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے گمراہی لے لی بجائے ہدایت کے تو سودمند نہ ہوئی ان کی یہ تجارت اور نہ یہ ٹھیک طریقہ پر چلے' (6)
6 - یعنی ان کو تجارت کا سلیقہ نہ ہوا کہ ہدایت کی سی اچھی چیز چھوڑ دی اور گمراہی کی بری چیز پالی۔
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًۭا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَـٰتٍۢ لَّا يُبْصِرُونَ (17)
ترجمہ: 'ان کی حالت اس شخص کی حالت کے مشابہ ہے جس نے (کہیں) آگ جلائی ہو پھر جب روشن کر دیا ہو (اس آگ نے) اس شخص کے گردا گرد کی سب چیزوں کو ایسی حالت میں) سلب کر لیا ہو اللہ تعالی نے ان کی روشنی کو اور چھوڑ دیا ہو ان کو اندھیروں میں کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہ ہوں۔'
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌۭ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18)
ترجمہ: 'بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو یہ اب رجوع نہ ہونگے' (1)
1 - یعنی حق سے بہت بعید ہو گئے ہیں کہ ان کے کان حق سننے کے قابل نہ رہے، زبان ان کی حق بات کہنے کے لائق نہ رہی، آنکھیں حق دیکھنے کے قابل نہ رہیں سو اب ان کے حق کی طرف رجوع ہونے کی کیا امید ہے۔
أَوْ كَصَيِّبٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌۭ وَرَعْدٌۭ وَبَرْقٌۭ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٰعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ ۚ وَٱللَّهُ مُحِيطٌۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ (19)
ترجمہ: 'یا (ان منافقوں کی ایسی مثال ہے) جیسے بارش ہو آسمان کی طرف سے اس میں اندھیری بھی ہو اور رعد و برق بھی ہو (جو لوگ اس بارش میں چل رہے ہیں) وہ ٹھونسے لیتے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں کڑک کے سبب اندیشہ موت سے اور اللہ تعالیٰ احاطہ میں لیے ہوئے ہیں کافروں کو۔'
يَكَادُ ٱلْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَـٰرَهُمْ ۖ كُلَّمَآ أَضَآءَ لَهُم مَّشَوْا۟ فِيهِ وَإِذَآ أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا۟ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ (20)
ترجمہ: برق کی یہ حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کی بینائی اس نے لی جہاں ذرا ان کو (بجلی کی) چمک ہوئی تو اس (کی روشنی میں) چلنا شروع کیا اور جب ان پر تاریکی ہوئی (پھر کھڑے کے) کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ تعالی ارادہ کرتے تو ان کے گوش و چشم سب سلب کر لیتے بلاشک اللہ تعالیٰ ہر چیز (2) پر قادر ہیں۔'
2 - متردد و منافقین آثار غلبہ اسلام میں کبھی نور اسلام کی جھلک دیکھ کر ادھر کو بڑھنے لگتے ہیں کہ اور کبھی خود غرضی کی ظلمت میں پڑ کر پھر حق سے رک جاتے ہیں۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی)
أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَـٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَـٰرَتُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ مُهْتَدِينَ (16)
ترجمہ: 'یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہر گز صحیح راستے پر نہیں ہیں'
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًۭا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَـٰتٍۢ لَّا يُبْصِرُونَ (17)
ترجمہ: 'ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نورِ بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ (16)'
16- مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے، صحیح کو غلط سے، راہ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا، تو جو لوگ دیدہ بینا رکھتے تھے، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں، مگر یہ منافق، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔ ” اللہ نے نور بصارت سلب کر لیا “ کے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ الفاظ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے۔ اللہ نور بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ جب انہوں نے نور حق سے منہ پھیر کر ظلمت باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی۔
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌۭ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18)
ترجمہ: 'یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے (17) ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے'
17- حق بات سننے کے لیے بہرے، حق گوئی کے لیے گونگے، حق بینی کے لیے اندھے۔
أَوْ كَصَيِّبٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌۭ وَرَعْدٌۭ وَبَرْقٌۭ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٰعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ ۚ وَٱللَّهُ مُحِيطٌۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ (19)
ترجمہ: 'یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑا کے سُن کے اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔(18)
18- یعنی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے۔
يَكَادُ ٱلْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَـٰرَهُمْ ۖ كُلَّمَآ أَضَآءَ لَهُم مَّشَوْا۟ فِيهِ وَإِذَآ أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا۟ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ (20)
ترجمہ: 'چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت اُچک لے جائے گی۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ (19) چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، (20) یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔'
19- پہلی مثال ان منافقین کی تھی جو دل میں قطعی منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دوسری مثال ان کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعف ایمان میں مبتلا تھے، کچھ حق کے قائل بھی تھے، مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی برداشت کر جائیں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مراد مشکلات و مصائب کا وہ ہجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریک اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آرہا تھا۔ مثال کے آخری حصہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں، اور جب مشکلات کے دل بادل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کی خواہشات نفس اور ان کے تعصبات جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے، تو ٹھٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
20- یعنی جس طرح پہلی قسم کے منافقین کا نور بصیرت اس نے بالكل سلب کر لیا، اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے اندھا بہرا بنا سکتا تھا۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ جو کسی حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہو، اسے اتنا بھی نہ دیکھنے سننے دے۔ جس قدر حق دیکھنے اور حق سننے کے لیے یہ تیار تھے، اسی قدر سماعت و بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَـٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَـٰرَتُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ مُهْتَدِينَ (16)
ترجمہ: یہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے۔
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًۭا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَـٰتٍۢ لَّا يُبْصِرُونَ (17)
ترجمہ: ان کی کہاوت اس طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا۔
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌۭ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18)
ترجمہ: بہرے ، گونگے ،اندھے تو وہ پھر آ نے والے نہیں،
أَوْ كَصَيِّبٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَـٰتٌۭ وَرَعْدٌۭ وَبَرْقٌۭ يَجْعَلُونَ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٰعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ ۚ وَٱللَّهُ مُحِيطٌۢ بِٱلْكَـٰفِرِينَ (19)
ترجمہ: یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ ان میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں ، کڑک کے سبب، موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو، گھیرے ہوئے ہے۔
يَكَادُ ٱلْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَـٰرَهُمْ ۖ كُلَّمَآ أَضَآءَ لَهُم مَّشَوْا۟ فِيهِ وَإِذَآ أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا۟ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ (20)
ترجمہ: بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا بیشک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
فرمان الٰہی: سورہ فاتحہ کی اہمیت، معنیٰ و مفہوم - Importance Of Surah Fatiha