نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ محض خودکشی نوٹ میں لوگوں کا نام ہونے اور انہیں موت کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے کوئی تعزیرات ہند کے تحت خودکشی کے لیے اکسانے کا مجرم ثابت نہیں ہوتا۔ جسٹس منوج کمار اوہری کی بنچ نے یہ تبصرہ ایک ساس کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ خودکشی نوٹ میں محض کچھ لوگوں کے ناموں کا ذکر ہونا اور یہ کہنا کہ وہ اس کی موت کے ذمہ دار ہیں، تعزیرات ہند کی دفعہ 306 کے تحت اسے خودکشی کے لیے اکسانے کا قصوروار ٹھہرانے کی واحد بنیاد نہیں ہو سکتی۔
درحقیقت درخواست گزار بہو 9 مارچ 2014 کو اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ 23 مارچ 2014 کو اس شوہر نے اپنی بیوی کے خلاف شکایت درج کرائی کہ وہ زیورات اور سامان لے کر چلی گئی ہے۔ پھر 31 مارچ 2014 کو شوہر نے خودکشی کر لی۔
شوہر کی خودکشی کے بعد ساس نے ایف آئی آر درج کراتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کے بیٹے نے بہو اور اس کے والدین کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ ایف آئی آر کے بعد پولیس نے تفتیش کی جس میں خودکشی نوٹ کو جرم سے جوڑنے کے لیے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔
اس کے بعد پولیس نے عدالت میں کلوزر رپورٹ جمع کرائی جس کی درخواست گزار ساس نے مخالفت کی۔ ساس کی احتجاجی درخواست میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے مسترد کر دی۔ جسے ایڈیشنل سیشن جج نے بھی منظور کر لیا۔ ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو ساس نے ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، جس پر آج ہائی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ محض سوسائڈ نوٹ میں نام ہونے کی بنیاد پر کسی کو خودکشی کے لیے اکسانے کا قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔