نئی دہلی: دہلی تشدد کیس میں دہلی پولیس کی طرف سے پیر کو عدالت میں تحریری دلائل داخل کئے گئے۔ اس کے بعد ککڑڈوما کورٹ نے دہلی تشدد کیس کے ملزم عمر خالد کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپائی نے فیصلہ 28 مئی کو سنانے کا حکم دیا۔
اس سے قبل 24 اپریل کو درخواست ضمانت پر فریقین کے دلائل مکمل ہوئے تھے۔ اس کے بعد 10 مئی کو عمر خالد کے وکیل تردیپ پیس نے 45 صفحات پر مشتمل تحریری دلائل داخل کیے۔ کیس کی سماعت کے دوران تردیپ پیس نے کہا تھا کہ دہلی پولیس چارج شیٹ میں عمر خالد کا نام اس طرح استعمال کر رہی ہے جیسے یہ کوئی منتر ہو۔ چارج شیٹ میں بار بار ناموں کا ذکر کرنے اور جھوٹ بولنے سے کوئی حقیقت ثابت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ عمر خالد کے خلاف میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔
پیس نے یہ بھی کہا تھا کہ ضمانت پر فیصلہ سناتے وقت عدالت کو ہر گواہ اور دستاویز کی جانچ کرنی ہوگی۔ بھیما کوریگاؤں کیس میں ورنن گونسالویس اور شوما سین کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے عمر خالد کی ضمانت کا مطالبہ کیا۔ پیس نے 10 اپریل کو سماعت کے دوران کہا تھا کہ ملزم سے ملاقات کا مطلب دہشت گردانہ سرگرمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمر خالد کے والد انٹرویو دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ عمر کی طرف سے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کی گئی تھی۔ عمر خالد کے خلاف یو اے پی اے کی دفعہ 15 نہیں لگائی جا سکتی۔
پیس نے استغاثہ کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ عمر خالد نے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ استغاثہ کہہ رہا ہے کہ عمر خالد، طاہر حسین اور خالد نے سیفی پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفتر میں ملاقات کی۔ استغاثہ کا یہ بیان صرف گواہ کا بیان اور سی ڈی آر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ضمانت نہ دینے پر سی ڈی آر پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں تک کہ سی ڈی آر کے مطابق تمام ملزمان مقررہ وقت اور تاریخ پر اکٹھے نہیں تھے۔ دہلی پولیس کی طرف سے 9 اپریل کو دلائل مکمل ہو گئے۔ سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے کہا تھا کہ دہلی ہائی کورٹ نے عمر خالد کی درخواست ضمانت مسترد کردی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ نے ضمانت مسترد کرنے کے سیشن کورٹ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ضمانت پر غور کرتے وقت تمام حقائق کو مدنظر رکھا جائے۔ امت پرساد نے کہا تھا کہ عمر خالد کی جانب سے ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحقیقات میں بہت سی بے ضابطگیاں ہیں۔ یہ بریت کی درخواست نہیں ہے۔ اس معاملے میں عمر خالد کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دیگر ملزمان کے خلاف سنگین الزامات ہیں اور وہ ضمانت پر ہیں اور دہلی پولیس نے انہیں ملزم بھی نہیں بنایا تھا۔
عمر خالد کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے کہا تھا کہ جن حقائق کی بنیاد پر تینوں ملزمان کو ضمانت دی گئی، وہی عمر خالد کے ساتھ ہیں۔ مساوات کے اصول کی بات کرتے ہوئے انہوں نے عمر خالد کی ضمانت کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ عمر خالد کے خلاف دہشت گردی کے قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگائی گئی۔ عدالت نے 28 فروری کو دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ عمر خالد نے سپریم کورٹ سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی تھی اور کہا تھا کہ اب وہ ٹرائل کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔ عمر خالد کو 2020 کے دہلی فسادات کے پیچھے مبینہ بڑی سازش کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ جیل میں ہیں۔ اس سے قبل 18 اکتوبر 2022 کو دہلی ہائی کورٹ نے عمر خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔