ETV Bharat / bharat

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ - اقلیتی درجہ کے معاملے پر

AMU Minority Status آئینی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے فیصلے سے پیدا ہونے والے مقدمے کی سماعت کر رہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں کی بنچ نے 2019 میں اس معاملے کو 7 ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔

پریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ
پریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 1, 2024, 9:18 PM IST

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کے معاملے پر 8 دنوں کی سماعت کے بعد جمعرات کے روز اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل سات ججوں کی آئینی بنچ نے تمام فریقوں کے دلائل سننے کے بعد سماعت مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

آئینی بنچ کو یہ مسئلے حل کرنا ہے کہ آیا کسی تعلیمی ادارے کو آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ حاصل ہوسکتا ہے اور کیا پارلیمانی قانون کے تحت قائم کردہ اور مرکزی فنڈ سے چلنے والی یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

آئینی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے فیصلے سے پیدا ہونے والے مقدمے کی سماعت کر رہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں کی بنچ نے 2019 میں اس معاملے کو 7 ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔

اے ایم یو اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون اور مسٹر کپل سبل نے اپنے دلائل پیش کئے۔ سینئر ایڈووکیٹ مسٹر سلمان خورشید، مسٹر سعدان فراست مداخلت کاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔

حکومت ہند کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹرامنی کے ساتھ ہی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔ نیرج کشن کول، گرو کرشن کمار، ونے ناوارے، یتندر سنگھ، وکرمجیت بنرجی (اے ایس جی) اور کے ایم نٹراج (اے ایس جی) سمیت متعدد دیگر سینئر وکلاء نے بھی مدعی علیہان اور مداخلت کاروں کی طرف سے دلائل پیش کئے۔ 8 دنوں کی طویل سماعتوں کے دوران، آئین کے آرٹیکل 30 کی تشریح، شیڈیول1 کے اندراج 63 کے ساتھ اس کا تعامل، اے ایم یو کی قانون سازی کی تاریخ، اور مختلف معاملات کے کئی اہم پہلوؤں کو بنچ کے سامنے رکھا گیا اور 1920 کے اصل ایکٹ میں 1951 اور 1981 میں کی گئی ترمیمات کو بھی زیر بحث لايا گیا۔

مرکزی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اے ایم یو قومی اہمیت کے حامل دارے کے طور پر برقرارہے، اس کے لیے اقلیت کا درجہ کیوں اہم ہے؟ اے ایم یو نے اپنے حقوق انگریزحکومت کے حوالے کر دیے تھے۔

یو این آئی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کے معاملے پر 8 دنوں کی سماعت کے بعد جمعرات کے روز اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل سات ججوں کی آئینی بنچ نے تمام فریقوں کے دلائل سننے کے بعد سماعت مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

آئینی بنچ کو یہ مسئلے حل کرنا ہے کہ آیا کسی تعلیمی ادارے کو آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ حاصل ہوسکتا ہے اور کیا پارلیمانی قانون کے تحت قائم کردہ اور مرکزی فنڈ سے چلنے والی یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

آئینی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے فیصلے سے پیدا ہونے والے مقدمے کی سماعت کر رہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں کی بنچ نے 2019 میں اس معاملے کو 7 ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔

اے ایم یو اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون اور مسٹر کپل سبل نے اپنے دلائل پیش کئے۔ سینئر ایڈووکیٹ مسٹر سلمان خورشید، مسٹر سعدان فراست مداخلت کاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔

حکومت ہند کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹرامنی کے ساتھ ہی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔ نیرج کشن کول، گرو کرشن کمار، ونے ناوارے، یتندر سنگھ، وکرمجیت بنرجی (اے ایس جی) اور کے ایم نٹراج (اے ایس جی) سمیت متعدد دیگر سینئر وکلاء نے بھی مدعی علیہان اور مداخلت کاروں کی طرف سے دلائل پیش کئے۔ 8 دنوں کی طویل سماعتوں کے دوران، آئین کے آرٹیکل 30 کی تشریح، شیڈیول1 کے اندراج 63 کے ساتھ اس کا تعامل، اے ایم یو کی قانون سازی کی تاریخ، اور مختلف معاملات کے کئی اہم پہلوؤں کو بنچ کے سامنے رکھا گیا اور 1920 کے اصل ایکٹ میں 1951 اور 1981 میں کی گئی ترمیمات کو بھی زیر بحث لايا گیا۔

مرکزی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اے ایم یو قومی اہمیت کے حامل دارے کے طور پر برقرارہے، اس کے لیے اقلیت کا درجہ کیوں اہم ہے؟ اے ایم یو نے اپنے حقوق انگریزحکومت کے حوالے کر دیے تھے۔

یو این آئی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.