لکھنؤ: اتر پردیش اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے دوران، ایم ایل اے روی داس مہرورترا کے سوال کے جواب میں حکومت نے 1 اپریل 2017 سے 31 اگست 2024 تک خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے حیران کن اعداد و شمار پیش کیے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سات سالوں کے دوران ریاست میں خواتین کے خلاف 2,17,264 جرائم درج کیے گئے۔ ان میں 24,893 جنسی زیادتی کے کیسز، 17,491 جہیز کے لیے ہراسانی، 79,072 چھیڑ چھاڑ اور 95,808 اغوا کے واقعات شامل ہیں۔
سزا کے اعداد و شمار
حکومت کے مطابق، 1 اپریل 2017 سے 20 اگست 2024 تک جنسی زیادتی کے کیسز میں 6,984 ملزمان کو سزا سنائی گئی، جبکہ دیگر پرتشدد واقعات میں 6,882 مجرموں کو سزا دی گئی۔
حکومت پر اپوزیشن کا حملہ
روی داس مہرورترا نے ان اعداد و شمار کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا، "حکومت خواتین کے خلاف جرائم پر زیرو ٹولرنس کی بات کرتی ہے، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے حکومتی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔
خواتین کی حفاظت کے لیے حکومتی اقدامات
حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھانے کا دعویٰ کیا ہے:
1. ویمن پاور لائن 1090: خواتین کی شکایات کے لیے 24 گھنٹے فعال سروس۔
2. ویمن ہیلپ ڈیسک: ریاست کے 1647 تھانوں میں قائم کی گئی۔
3. ویمن بیٹ سسٹم: تھانہ سطح پر خواتین پولیس افسران کی تعیناتی۔
4. اینٹی رومیو اسکواڈ: خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی مہم۔
5. فوری رجسٹریشن: خواتین کے خلاف جرائم کی شکایات فوری درج کرنے کی ہدایت۔
دیگر مسائل پر سوالات
روی داس مہرورترا نے حکومت سے دیگر مسائل پر بھی جواب طلب کیا۔ لکھنؤ کے حیدر کینال علاقے میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کی بے دخلی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا، "حکومت نے ان کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی، لیکن ہم ان لوگوں کو حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
مزید برآں، ثانوی تعلیم بورڈ کی جانب سے اردو کی کتابیں نہ چھاپنے کے معاملے پر انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
حکومت کی کارکردگی پر اپوزیشن کے تحفظات
روی داس مہرورترا نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات محض کاغذی دعوے ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "حکومت کو اپنی پالیسیوں کو سختی سے نافذ کرنے اور زمینی سطح پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔