مالیگاؤں: مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں کے 2006 بم دھماکہ معاملے کو انگریزی کلینڈر کے حساب سے 18 سال مکمل ہوگئے۔ اٹھارہ سال قبل 8 ستمبر 2006 کو جمعہ کی نماز کے وقت حمیدیہ مسجد بڑا قبرستان اور مشاورت چوک میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے۔ جس میں 31 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 312 افراد زخمی ہوئے تھے۔ چار مقامات پر بم نصب کیئے گئے تھے، پہلا بم حمیدیہ مسجد کے گیٹ پر، دوسرا پارکننگ میں کھڑی سائیکل پر، تیسرا وضو خانہ کے پاس کی دیوار پر لٹکادیا گیا تھا۔ اور چوتھا بم مشاورت چوک میں نصب کیا گیا تھا۔ شب برات کا موقع تھا جس کی وجہ سے قبرستان کے گیٹ پر شہر اور دیگر مقامات سے آنے والے فقیروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یاد رہے کہ بم دھماکوں کی تفتیش سب سے پہلے مقامی پولیس نے شروع کی لیکن اسے ریاستی حکومت کی ایماء پر فوراً انسداد ہشت گردی دستہ (ATS) نے اپنے ہاتھو ں میں لے لیا۔
اے ٹی ایس نے اپنے مطابق تفتیش کی اور بم دھماکہ کے الزام میں ملزمین نورالہدا شمش الضحی، شبیر احمد مسیح اللہ (مرحوم)، رئیس احمد رجب علی منصوری، ڈاکٹر سلمان فارسی عبدالطیف آئمی، ڈاکٹر فروغ اقبال احمد مخدومی، شیخ محمد علی عالم شیخ، آصف خان بشیر خان، محمد زاہد عبدالمجید انصاری، ابرار احمد غلام احمد کو گرفتار کیا۔ اے ٹی ایس نے نا صرف مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا بلکہ ان کے خلاف ہزاروں صفحات پر مشتمل چارج شیٹ بھی داخل کی۔ مقدمہ اے ٹی ایس کے ذریعہ تفتیش کئے جانے کی وجہ سے مقدمہ کی سماعت ممبئی میں قائم خصوصی مکوکا عدالت میں ہونے لگی، مالیگاؤں سیشن عدالت کے پاس مکوکا قانون کے تحت داخل مقدمات چلانے کی پاور نہیں ہونے کی وجہ سے مقدمہ مالیگاؤں سے ممبئی منتقل کردیا گیا اور ملزمین کو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل منقتل کردیا گیا۔ حالانکہ عموماً یہ کہا جاتا ہیکہ Justice delayed is justice denied لیکن اس معاملے میں تاخیر سے مسلم ملزمین کو فائدہ ہوا اور نہ صرف انہیں فائدہ ہوا بلکہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا جو دھبہ لگا تھا وہ بھی کچھ حد تک صاف ہوگیا کیونکہ قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے مقدمہ کی تفتیش اپنے ہاتھوں میں لیکر مزید تفتیش کی اور یہ پایا کہ مالیگاؤں 2006 بم دھماکے مسلم نوجوانوں نے نہیں بلکہ ہندو دہشت گردوں دھان سنگھ شیو سنگھ، منوہر رام سنگھ نرواریا، راجندر وکرم سنگھ چودھری اور لوکیش شرما گوپال کرشنا نے کئے تھے۔ اسطرح کی تفصیلات جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے ایڈووکیٹ شاہد ندیم نے نمائندے ای ٹی وی بھارت کو ممبئی سے بذریعہ فون پر روانہ کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھگواء دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد مسلم نوجوانوں نے سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے مکوکا عدالت میں ضمانت عرضداشت داخل کی، ضمانت عرضداشت کی سماعت خصوصی مکوکا جج وائی ڈی شندے نے کی اور قومی تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اعتراض نہیں کئے جانے کی وجہ سے مکوکا عدالت نے تمام ملزمین کی ضمانت منظور کرلی۔ مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی کے بعد انہیں مالیگاؤں سے ممبئی تاریخ پر آنا پڑتا تھا اور ان کے ساتھ ہی بھگواء ملزمین کو بھی عدالت میں پیش کیا جانے لگا، اسی درمیان قومی تفتیشی ایجنسی نے اپنی اضافی چارج شیٹ عدالت میں داخل کردی جس میں یہ کہا کہ اے ٹی ایس نے مسلم نوجوانوں کو غلط طریقے سے ملزم بنایا ہے جبکہ یہ بم دھماکے دھان سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے کیئے تھے۔ این آئی اے نے اپنی تفتیش میں یہ بھی پایا کہ اے ٹی ایس کی جانب سے داخل ہزاروں کی صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جھوٹ کا پلندہ ہے، گواہوں کے بیانات جعلی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قومی تفتیشی ایجنسی کی تازہ فرد جرم کو بنیاد بنا کر مسلم نوجوانوں کی مقدمہ سے ڈسچارج کی عرضداشت خصوصی این آئی اے عدالت میں داخل کی گئی جس کی نا صرف بھگواء ملزمین نے مخالفت کی بلکہ انسداد دہشت گرد دستہ اے ٹی ایس نے بھی مخالفت کی اور اپنے جواب میں کہا کہ ان کی تفتیش درست ہے اور عدالت کو مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی بجائے دونوں گروپ کے ملزمین کو مقدمہ کا سامنا کرنے کا حکم دینا چاہئے۔ لیکن 25 اپریل 2016 کو خصوصی این آئی اے عدالت کے جج وی وی پاٹل نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا۔ مسلم نوجوانوں کے مقدمہ سے بری کئے جانے والے فیصلے سے بھگوا ء دہشت گردوں اور اے ٹی ایس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور انہوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
حالانکہ نچلی عدالت نے مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا۔ لیکن بھگواء ملزمین اور اے ٹی ایس کی جانب سے داخل اپیل کو بامبے ہائی کورٹ نے سماعت کے لئے قبول کرلیا ہے۔ جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی مسلم نوجوانوں کے خلاف داخل اپیل کی سخت لفظوں میں مخالفت کی لیکن ہائی کورٹ کے ججوں کے مستقل تبادلوں کی وجہ سے اپیل التواء کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہیکہ جب تک ہائی کورٹ اے ٹی ایس اور ہندو ملزمین کی اپیلوں پر فیصلہ نہیں کردیتی، نچلی عدالت مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں کریگی۔
اسی درمیان قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے گرفتار کیئے گئے چاروں بھگواء دہشت گردوں کو بامبے ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کا حکم جاری کر دیا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد بھگواء دہشت گردوں نے خصوصی عدالت میں مقدمہ سے ڈسچارج کی عرضداشت داخل کی ہے جس کی بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے۔
اس مقدمہ کی تفتیش این آئی اے کے پاس ہونے سے بم دھماکہ متاثرین خود سے کچھ نہیں کرسکتے ہیں، کریمنل پروسیجر کوڈ کے مطابق مقدمہ کو استغاثہ ہی چلائے گا جبکہ مداخلت کار کی حیثیت سے بم دھماکہ متاثرین محض ان کی مدد کرسکتے ہیں، ناچاہتے ہوئے بھی بم دھماکہ متاثرین کو مقدمہ کی سماعت شروع ہونے کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
ایڈووکیٹ شاہد ندیم نے بتایا کہ 18 سالوں کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں ہوسکی ہے، حالانکہ این آئی اے نے بھگواء ملزمین کو گرفتار کیا ہے لیکن وہ مقدمہ چلانے میں دلچسپی کا مظاہر ہ نہیں کررہی ہے۔ اور اوپر سے ہائی کورٹ میں زیر سماعت اپیل کی وجہ سے نچلی عدالت بھی دیکھو اور عمل کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جس نہج اور رفتار پر مقدمہ چل رہا ہے، اگلے پانچ سے دس سالوں میں بھی مقدمہ کی سماعت شروع ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
خصوصی این آئی اے عدالت میں چاروں بھگوا ملزمین نے انہیں مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی عرضداشت ایک برس قبل داخل کی تھی لیکن ان کے وکلاء ڈسچارج عرضداشت پر بحث کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گذشتہ ہفتہ ہی اس مقدمہ کی سماعت خصوصی این آئی اے عدالت میں ہوئی جس کے دوران ایک بار عدالت نے سماعت ملتوی کردی، تاریخ پر تاریخ والا معاملہ چل رہا ہے۔
بم دھماکہ متاثرین اور انصاف پسند طبقہ مایوسی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے مقدمہ کی سماعت شروع کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی جلد بازی میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یاد رہے کہ مالیگاؤں 2006 بم دھماکہ مقدمہ کے برعکس 2008 بم دھماکہ مقدمہ کی سماعت اپنے آخری مراحل میں ہے، حتمی بحث شروع ہوچکی ہے۔ جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کی ہدایت پر دونوں مقدمات میں بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے مداخلت کی جارہی ہے تاکہ متاثرین کو انصاف حاصل ہوسکے، بم دھماکہ متاثرین کی نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک نمائندگی کرنے والی وکلاء کی ٹیم کا احقر اہم حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: