سرینگر (جموں و کشمیر):ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے ایک اہم پیشرفت کے تحت جموں کشمیر انتظامیہ سے اسکولوں میں جنسی تعلیم دینے کے حوالے سے اُن کا موقف طلب کیا ہے۔ مرکزی زیر انتظام خطے میں بچوں کو بدسلوکی اور استحصال سے تحفظ دینے سے متعلق از خود نوٹس معاملے میں وکیل مینو پادھا کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کے پیش نظر عدالت نے انتظامیہ کا موقف طلب کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ رواں مہینے کی پانچ تاریخ کو چیف جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور جسٹس راجیش سیکھری پر مشتمل بینچ کی نوٹس میں لایا گیا تھا کہ ’’درخواست گزار نے متعلقہ حکام کے ذریعے عمل درآمد کے لیے کچھ تجاویز پیش کی تھیں جو ان بچوں کے مفاد کے لیے فائدہ مند ہوں گی جو بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہیں۔‘‘ وکیل پادھا کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ’’بچوں کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرنے والا ایک خصوصی نصاب سرکاری اور نجی اسکولوں میں لاگو کیا جائے۔ ایک ماہر کمیٹی کے زیر نگرانی اس نصاب کا مقصد اساتذہ کو حساس بنانا، بچوں کو بدسلوکی کی اطلاع دینے کے لیے بااختیار بنانا، اور شکایات سے نمٹنے کے لیے ایک پروٹوکول قائم کرنا ہے۔‘‘
سفارشات میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ’’بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی مختلف شکلوں کی شناخت، روک تھام اور ان سے نمٹنے کے لیے اساتذہ اور عملے کے لیے جامع تربیتی پروگرام، بشمول جنسی زیادتی، جبر، اور ورچوئل ابیوز، (Virtual Abuse) ممکنہ بدسلوکی کرنے والوں کی شناخت کے لیے حکمت عملی، گھر اور اسکول کے احاطے میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔‘‘ علاوہ ازیں ’’اسکولوں پر زور دیا جائے کہ وہ ایک شفاف حفاظتی پالیسی قائم کریں، رازداری کو یقینی بنائیں، رپورٹنگ کے طریقہ کار اور مجرموں کے خلاف مناسب کارروائی عمل میں لائیں۔‘‘