اردو

urdu

Madrasa Babul Uloom in Delhi: باب العلوم جعفرآباد دہلی میں مثالی مکتب کا افتتاح

By

Published : Jul 31, 2022, 1:53 PM IST

آج کے اس پرفتن دور میں فتنوں سے لڑنے کے لیے مکاتب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور وہ اس لیے ہے کہ اس مقابلہ آرائی اور فرقہ پرستی کے دور میں اگر کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ مدارس اسلامیہ ہیں۔ اسلام کے اس پودے کو نیست ونابود کرنے والے پروپیگنڈے اور کوششیں سبھی کو ناکام بنانے میں مدارس اسلامیہ اور مکاتب نے اپنا اہم رول ادا کیا ہے۔ جہاں پر بھی انسانیت کو رہنمائی کی ضرورت پیش آئی تو انہی مدارس اور مکاتب نے کاندھے سے کاندھا ملاکر مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے۔ Misali Maktab at Babul Uloom

Madrasa Babul Uloom in Delhi
Madrasa Babul Uloom in Delhi

نئی دہلی:دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے نئی نسل کو آراستہ کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آج کے دور میں جہاں چہار سو ارتداد اور کفر وظلمت کی آندھیاں اسلام اور مسلمانوں پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔ لیکن اسلام کے اس پودے کو نیست ونابود کرنے والے پروپیگنڈے اور کوششیں سبھی کو ناکام بنانے میں مدارس اسلامیہ اور مکاتب نے اپنا اہم رول ادا کیا ہے۔ جہاں پر بھی انسانیت کو رہنمائی کی ضرورت پیش آئی تو انہی مدارس اور مکاتب نے کاندھے سے کاندھا ملاکر مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے اور پوری انسانیت کو مشعل راہ دکھانے کا کام کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مدرسہ باب العلوم جعفرآباد دہلی میں ’مثالی مکتب‘ کے افتتاح کے موقع پر علماء کرام نے کیا۔ Inauguration of Misali Maktab at Babul Uloom Jafrabad Delhi

یہ بھی پڑھیں:

قابل ذکر ہے کہ اس مکتب کا آغاز جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین کی زیر صدارت عمل میں آیاجس کا آغاز مدرسہ ہٰذا کے طالب علم محمد زبیر سلمہ کی تلاوت و نعتیہ کلام سے ہوا۔ مدرسہ باب العلوم جعفرآباد کے مہتمم اور دینی تعلیمی بورڈ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمد داؤد امینی نے ’منظم مکاتب‘ کے حوالے سے کہا کہ آج کے اس دور میں ان مکاتب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ Madrasa Babul Uloom in Delhi

انہوں نے کہا کہ مکاتب کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس مقابلہ آرائی کے دور میں نونہالانِ مسلمان کو عصری تعلیم تو بڑھ چڑھ کر سکھائے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن دینی تعلیم سے قوم کا مستقبل یہ نونہالانِ مسلم پوری طرح نابلد اور ناآشنا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کا مستقبل ان کے آنے والی نئی نسل کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ اگر یہ چھوٹے چھوٹے اور معصوم بچے دینی تعلیم سے آراستہ نہیں ہوں گے تو قوم وملت کی فلاح وبہبود میں اپنا حصہ اور اپنی خدمات دینے سے قاصر رہ جائیں گے۔

لہٰذا انہی نونہالانِ ملک وملت کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کے حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے ’منظم اور مثالی مکاتب ‘ کا نظم کیا گیا ہے تاکہ بچے اپنی دنیاوی تعلیم کی مصروفیت میں سے کچھ وقت دینی تعلیم کے حصول میں بھی خرچ کر سکیں اور دونوں جہاں میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوسکیں۔ اس ’مثالی مکتب‘ کے افتتاحی پروگرام میں شامل ہونے والوں میں مولانا غیور قاسمی، مفتی فضیل، مولانا کلام اللہ، مولانا اویس احمد، قاری محمد اسعد، مفتی محمد آصف اور قاری محمد ارشاد صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details