اردو

urdu

By

Published : Nov 16, 2021, 3:01 PM IST

ETV Bharat / state

’بھارت میں 30 کروڑ سے زائد افراد ناخواندہ ہیں‘

ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زیادہ امریکی ڈالر آپ کے پاس ہوں، بلکہ ترقی وہ ہے جہاں لوگ اچھی خوراک، تعلیم، لمبی عمر، زیادہ آزادی وغیرہ کے ساتھ اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ عالمی معیار کی تعلیم بھارتی معاشرے میں مساوات کے پہلوں پر اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہر معاشی ترقیات پروفیسر جین ڈریز نے ایناڈو کے اسوسی ایٹ ایڈیٹر بیورو، این وشوا پرساد کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔

بھارت میں تعلیمی شعبہ کے بحران پر جان ڈریز سے خصوصی انٹرویو
بھارت میں تعلیمی شعبہ کے بحران پر جان ڈریز سے خصوصی انٹرویو

سوال 1) آزادی کے 75 برس بعد بھی، دنیا کا ہر تیسرا ناخواندہ بالغ شخص بھارتی ہے۔ بھارت میں فی الحال 30 کروڑ سے زائد افراد ناخواندہ ہیں، ملک کے تعلیمی شعبہ میں ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے؟

جواب: میرے خیال سے اس سلسلہ میں اگر کوئی بنیادی وجہ ہے تو وہ غریب بچوں، خاص طور پر دلت اور آدیواسی بچوں کی تعلیم کے تئیں مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی ہے۔ جاری برس اس بے حسی کی متعدد مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ کو معلوم ہوتا کہ اس سال اسکولی سطح کی تعلیم کے بجٹ میں 10 فیصد کی کمی کی گئی جبکہ مرکزی حکومت کے مجموعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم اقدام تھا تاہم گذشتہ فروری میں بجٹ سیشن کے دوران اس پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ جس سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ پرائمری تعلیم کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔

اس طرح فی الحال تعلیم کا شعبہ بھی گہرے بحران سے گزر رہا ہے۔ طلباء تقریباً دو سال سے اسکولوں سے دور تھے۔ اب وہ واپس اسکول جانے کےلیے اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو شروع کرنے کےلیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ بچوں کو تعلیم کی جانب دوبارہ راغب کرنے کےلیے کافی تیاری، ذہن سازی اور وسائل کی ضرورت ہے جبکہ اس معاملہ میں کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ملک اور مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے ضرورت مندوں کی تعلیم پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔

سوال 2) ہمارے ملک میں تقریباً 40 فیصد بچے پرائمری سطح پر پرائیویٹ اسکولز کا رخ کرتے ہیں جبکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ آپ کو اس کے کیا اثرات نظر آتے ہیں..؟

جواب: یہ حقیقت ہے۔ میرے خیال میں بھارتی عوام کچھ حقائق سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں، زیادہ تر بچے سرکاری اسکولز یا کچھ (برائےمنافع) نجی اسکولوں کو جاتے ہیں۔ نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ دیگر کئی ممالک میں بھی ایسی ہی ہوتا ہے، لیکن بھارت اور دیگر ممالک میں اس طرح کا ماحول نہیں ہے۔بھارت میں، پرائمری سطح پر ایک تہائی سے زیادہ طلباء نجی اسکولوں کو جاتے ہیں جبکہ یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پرائیویٹ سسٹم میں بہت زیادہ سطح بندی ہے، کم فیس والے نجی اسکولز کا معیار سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے اور جو انتہائی مہنگے نجی اسکول ہیں، ان کا میعار دنیا کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سرکاری اسکولز میں بھی بہت سی تفاوتیں ہیں۔ بعض غیرفعال اسکولوں کی وجہ سے طلبا پریشان ہیں، وہیں نوودیا ودیالیہ اپنے بہتر معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔لہٰذا تعلیمی نظام میں سطح بندی کی متعدد پرتیں ہیں، جو معاشی اور سماجی عدم مساوات کو تقویت دیتی ہیں۔ عالمی معیاری تعلیم، بھارتی معاشرے میں مساوات کےلیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن آج کا تعلیمی نظام اس مقصد کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

سوال 3) جیسا کہ آپ نے کہاکہ تعلیم میں عدم مساوات، سماجی عدم مساوات کا باعث بن رہی ہے۔ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب: یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اسکولنگ سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ چیزوں کو درست کرنے اور تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے قومی تحریک کی ضرورت ہوگی۔ جب سیاسی قیادت کسی چیز پر زیاد توجہ دیتی ہے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں صفائی مہم، پی ڈی ایس اصلاحات اور ویکسینیشن پروگرام میں دیکھنے کو ملی ہے۔ اگر کچھ عرصے کے دوران ابتدائی تعلیم کے لیے اس طرح کی کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔

حالیہ برسوں میں اسکولنگ سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کافی تحقیق کی گئی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ بھارت میں سرکاری اسکولنگ سسٹم میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی کلاس کے کچھ طلباء دوسروں طلبا کے ہم پلہ ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔ کلاس روم میں اس عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے، ہمیں آنگن واڑی سطح کے پری پرائمری اسکولوں پر خاص توجہ دینی چاہئے اور سب سے پہلے، ہمیں اسکولنگ سسٹم میں برتی جارہی کوتاہی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال 4) یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تقریباً 11 لاکھ اسکول ہیں جہاں ایک ہی استاد تعینات ہے…

جواب: یہ صحیح ہے، اور ایسے بھی بہت سارے اسکولز ہیں جسے صرف پیرا ٹیچرز ہی چلاتے ہیں۔ جھارکھنڈ میں، جہاں میں رہتا ہوں، سارے بلاکس میں اساتذہ کی نگرانی یا حمایت نام نہاد بلاک ریسورس پرسنز کے ذریعہ کی جاتی ہے جو خود اساتذہ سے کم قابلیت کے حامل اور کنٹریکٹ ملازم ہوتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیمی نظام میں بہت ساری خرابیاں ہیں جنہیں ٹھیک کیا جانا چاہئے۔ سب کچھ ٹھیک کرنے کےلیے سب سے پہلے ہمیں اسکولنگ سسٹم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سوال 5) جاری سال کے آغاز پر آپ نے طلبہ اور کچھ رضاکاروں کے ساتھ ملکر ملک بھر میں تقریباً 1400 پسماندہ بچوں اور ان کے خاندانوں کا سروے کیا تھا، اس سروے کے اہم نتائج کیا تھے؟

جواب: اہم نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ آن لائن تعلیم غریب بچوں کے لیے کسی افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے پایا کہ دیہی علاقوں میں، پسماندہ خاندانوں میں، صرف 8 فیصد بچے باقاعدگی سے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بہت سارے بچے آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ صرف اسمارٹ فون کی عدم دستیابی نہیں ہے بلکہ دیگر وجوہات جیسے ری چارج کرنے کے لیے پیسے نہ ہونا، نیٹ ورک کنیکٹیویٹی کا خراب ہونا، اور گھر میں مطالعہ کا مناسب ماحول نہ ہونا شامل ہیں۔ نیز، بہت سے لوگ اسکولوں کے ذریعے بھیجے گئے آن لائن مواد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

سروے کے دوران بچوں کا آسان ٹسٹ لیا گیا، بچوں کو ایک سادہ جملہ پڑھنے کو کہا گیا۔ دیہی علاقوں میں، کلاس 3 میں داخلہ لینے والے 25 فیصد بچے اس جملے کو پڑھ سکے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچے گذشتہ جماعتوں میں سیکھی ہوئی باتوں کو بھول چکے ہیں لیکن انہیں پروموٹ کیا جارہا ہے۔

سوال 6) موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے، اسکولوں کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے آپ کس قسم کی تبدیلیاں کرنے کا مشورہ دیں گے؟

جواب: سب سے اہم بات یہ ہے کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہوش میں آنا چاہئے اور شارٹ کٹ سے بچنا چاہئے۔ ہمیں اس واضح فرق کا ادراک کرنا ہوگا جو غریب بچوں کو اس گریڈ کے نصاب سے الگ کرتا ہے جس میں وہ داخلہ لے رہے ہیں اور ہمیں یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ مختصر مدت کے برج کورسز کے ذریعے اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ بہت سی ریاستیں بنیادی طور پر جلد بازی میں معمول کے مطابق سرگرمیاں واپس لانے کی کوشش کررہی ہیں، اس سے تباہی ہوسکتی ہے۔ یا تو نصاب کو بہت زیادہ آسان بنانے کی ضرورت ہے، یا بچوں کو مزید وقت دینا ہوگا، یا انہیں برج کورسز یا دیگر ذرائع سے ایک طویل مدت کے لیے سنجیدہ اور اضافی مدد فراہم کرنی ہوگی۔

بلاشبہ، ہم تینوں میں سے تھوڑا بہت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نصاب اور تدریس کو کم و بیش اس طرح نہیں رکھ سکتے جیسے وہ ہیں، ایک مختصر مدت کے برج کورس کے ساتھ بچوں کو اس قابل بنانا ہوگا۔

سوال 7) حکومت نے 2025 تک 5 ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت کا ہدف مقرر کیا ہے۔ کیا شعبہ تعلیم میں نامناسب کارکردگی کے درمیان یہ ممکن ہے؟ کیا تعلیم اور معاشی ترقی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے؟

جواب: یقینا، وہ جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے، میں سمجھتا ہوں کہ 2025 تک بھارت کے پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے ہدف کو نظرانداز کر دیا جائے گا، کیونکہ ایسا کوئی قابل فہم منظرنامہ نہیں ہے جہاں اسے حاصل کیا جا سکے۔

دوسرا، میرے خیال میں ہمیں اقتصادی ترقی پر نہیں بلکہ مجموعی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زیادہ امریکی ڈالر ہوں، بلکہ لوگ اچھی خوراک، تعلیم، لمبی زندگی، زیادہ آزادی وغیرہ کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو۔ بے شک، اگر معیشت اچھی طرح سے ترقی کر رہی ہے تو اس سے مدد مل سکتی ہے، لیکن صرف اُس صورت میں جب وسائل کو غریب لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اگر ہم ترقی کے بارے میں خیال کرتے ہیں تو تعلیم پر غور کرنا سب سے اہم ہوگا۔ یہ ترقی، صحت، سماجی مساوات اور جمہوریت کے لیے بھی اہم ہے۔

سوال 8: ترقی پذیر ممالک میں وہ کونسے ملک ہیں جو تعلیمی شعبہ میں ترقی کےلیے درست سمت پر گامزن ہیں اور ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

ج: میرے خیال میں ہم بہت سے ممالک سے سیکھ سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سے باہر ایشیا کے بیشتر ممالک نے تعلیم کو بہت اہمیت دی ہے اور اسکولنگ سطح پر ہی خاص توجہ دی جاتی ہے جس کے بھرپور فوائد بھی حاصل ہورہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں بھی، ہم سری لنکا سے سیکھ سکتے ہیں، جو ابتدائی تعلیم میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ اتفاق سے، سری لنکا میں زیادہ تر سرکاری اسکول ہیں جبکہ نجی اسکولز بہت کم ہیں۔ درحقیقت پرائیویٹ اسکولوں کو چند دہائیاں قبل قومیا لیا گیا تھا۔ زیادہ تر بچے سرکاری یا سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان اس کی پیروی کر سکتا ہے۔ لیکن ہم ترقی کے لیے ابتدائی تعلیم کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آگے قدم بڑھا سکتے ہیں۔

ویسے بھی ہم کچھ بھارتی ریاستوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں جنہوں نے ابتدائی تعلیم پر زور دیا ہے، مثال کے طور پر کیرالہ۔ اس کے علاوہ ہماچل ایک پسماندہ خطہ سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ یہ شکوک و شبہات تھے کہ آیا یہ ایک آزاد ریاست کے طور پر بھی زندہ رہے گا۔ برسوں بعد، خواندگی کی شرح کم عمر بچوں کے گروپ میں کیرالہ کے برابر تھی، جس نے ہماچل کو کئی شعبوں میں تیزی سے ترقی کرنے کے قابل بنایا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details