سوال 1) آزادی کے 75 برس بعد بھی، دنیا کا ہر تیسرا ناخواندہ بالغ شخص بھارتی ہے۔ بھارت میں فی الحال 30 کروڑ سے زائد افراد ناخواندہ ہیں، ملک کے تعلیمی شعبہ میں ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے؟
جواب: میرے خیال سے اس سلسلہ میں اگر کوئی بنیادی وجہ ہے تو وہ غریب بچوں، خاص طور پر دلت اور آدیواسی بچوں کی تعلیم کے تئیں مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی ہے۔ جاری برس اس بے حسی کی متعدد مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ کو معلوم ہوتا کہ اس سال اسکولی سطح کی تعلیم کے بجٹ میں 10 فیصد کی کمی کی گئی جبکہ مرکزی حکومت کے مجموعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم اقدام تھا تاہم گذشتہ فروری میں بجٹ سیشن کے دوران اس پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ جس سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ پرائمری تعلیم کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔
اس طرح فی الحال تعلیم کا شعبہ بھی گہرے بحران سے گزر رہا ہے۔ طلباء تقریباً دو سال سے اسکولوں سے دور تھے۔ اب وہ واپس اسکول جانے کےلیے اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو شروع کرنے کےلیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ بچوں کو تعلیم کی جانب دوبارہ راغب کرنے کےلیے کافی تیاری، ذہن سازی اور وسائل کی ضرورت ہے جبکہ اس معاملہ میں کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ملک اور مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے ضرورت مندوں کی تعلیم پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔
سوال 2) ہمارے ملک میں تقریباً 40 فیصد بچے پرائمری سطح پر پرائیویٹ اسکولز کا رخ کرتے ہیں جبکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ آپ کو اس کے کیا اثرات نظر آتے ہیں..؟
جواب: یہ حقیقت ہے۔ میرے خیال میں بھارتی عوام کچھ حقائق سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں، زیادہ تر بچے سرکاری اسکولز یا کچھ (برائےمنافع) نجی اسکولوں کو جاتے ہیں۔ نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ دیگر کئی ممالک میں بھی ایسی ہی ہوتا ہے، لیکن بھارت اور دیگر ممالک میں اس طرح کا ماحول نہیں ہے۔بھارت میں، پرائمری سطح پر ایک تہائی سے زیادہ طلباء نجی اسکولوں کو جاتے ہیں جبکہ یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پرائیویٹ سسٹم میں بہت زیادہ سطح بندی ہے، کم فیس والے نجی اسکولز کا معیار سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے اور جو انتہائی مہنگے نجی اسکول ہیں، ان کا میعار دنیا کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سرکاری اسکولز میں بھی بہت سی تفاوتیں ہیں۔ بعض غیرفعال اسکولوں کی وجہ سے طلبا پریشان ہیں، وہیں نوودیا ودیالیہ اپنے بہتر معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔لہٰذا تعلیمی نظام میں سطح بندی کی متعدد پرتیں ہیں، جو معاشی اور سماجی عدم مساوات کو تقویت دیتی ہیں۔ عالمی معیاری تعلیم، بھارتی معاشرے میں مساوات کےلیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن آج کا تعلیمی نظام اس مقصد کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
سوال 3) جیسا کہ آپ نے کہاکہ تعلیم میں عدم مساوات، سماجی عدم مساوات کا باعث بن رہی ہے۔ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟
جواب: یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اسکولنگ سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ چیزوں کو درست کرنے اور تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے قومی تحریک کی ضرورت ہوگی۔ جب سیاسی قیادت کسی چیز پر زیاد توجہ دیتی ہے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں صفائی مہم، پی ڈی ایس اصلاحات اور ویکسینیشن پروگرام میں دیکھنے کو ملی ہے۔ اگر کچھ عرصے کے دوران ابتدائی تعلیم کے لیے اس طرح کی کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔
حالیہ برسوں میں اسکولنگ سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کافی تحقیق کی گئی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ بھارت میں سرکاری اسکولنگ سسٹم میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی کلاس کے کچھ طلباء دوسروں طلبا کے ہم پلہ ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔ کلاس روم میں اس عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے، ہمیں آنگن واڑی سطح کے پری پرائمری اسکولوں پر خاص توجہ دینی چاہئے اور سب سے پہلے، ہمیں اسکولنگ سسٹم میں برتی جارہی کوتاہی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال 4) یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تقریباً 11 لاکھ اسکول ہیں جہاں ایک ہی استاد تعینات ہے…
جواب: یہ صحیح ہے، اور ایسے بھی بہت سارے اسکولز ہیں جسے صرف پیرا ٹیچرز ہی چلاتے ہیں۔ جھارکھنڈ میں، جہاں میں رہتا ہوں، سارے بلاکس میں اساتذہ کی نگرانی یا حمایت نام نہاد بلاک ریسورس پرسنز کے ذریعہ کی جاتی ہے جو خود اساتذہ سے کم قابلیت کے حامل اور کنٹریکٹ ملازم ہوتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیمی نظام میں بہت ساری خرابیاں ہیں جنہیں ٹھیک کیا جانا چاہئے۔ سب کچھ ٹھیک کرنے کےلیے سب سے پہلے ہمیں اسکولنگ سسٹم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سوال 5) جاری سال کے آغاز پر آپ نے طلبہ اور کچھ رضاکاروں کے ساتھ ملکر ملک بھر میں تقریباً 1400 پسماندہ بچوں اور ان کے خاندانوں کا سروے کیا تھا، اس سروے کے اہم نتائج کیا تھے؟
جواب: اہم نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ آن لائن تعلیم غریب بچوں کے لیے کسی افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے پایا کہ دیہی علاقوں میں، پسماندہ خاندانوں میں، صرف 8 فیصد بچے باقاعدگی سے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بہت سارے بچے آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ صرف اسمارٹ فون کی عدم دستیابی نہیں ہے بلکہ دیگر وجوہات جیسے ری چارج کرنے کے لیے پیسے نہ ہونا، نیٹ ورک کنیکٹیویٹی کا خراب ہونا، اور گھر میں مطالعہ کا مناسب ماحول نہ ہونا شامل ہیں۔ نیز، بہت سے لوگ اسکولوں کے ذریعے بھیجے گئے آن لائن مواد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔