چند روز قبل رانی پورہ اننت ناگ میں ایک 17 سالہ لڑکے کی موت اس وقت ہوئی جب وہ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ گرمی کی تپش کم کرنے کے لئے نہانے گیا اور نہانے کے دوران غرقآب ہو گیا۔ جس کی پہچان راحیل احمد فرزند نذیر احمد شیخ کے بطور ہوئی۔
راحیل نے چند سال قبل اپنی پڑھائی چھوڑ کر پیسے کمانے کے غرض سے ترخان (کارپنٹر) بننے کا کام سیکھ رہا تھا، کیونکہ وہ ایک بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ راحیل کے والد عارضی کنٹینجنٹ پے ورکر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہ محض کچھ سو ہی ہے۔ راحیل کے دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے، جن کی پرورش راحیل کے والد کے لئے محال بن گئی تھی کیونکہ وہ جسمانی طور پر معذور بھی ہیں۔ آج کے اس مہنگائی کے دور میں محض کچھ سو روپیوں پر کیسے کوئی گھر چلا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ذمہ داری راحیل کے کندھوں پر آگئی تھی، اور اب وہی گھر کا واحد کمانے والا نوجوان تھا۔ اسکول سے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کر کے والد کا ہاتھ بٹانے کے لئے بیچ میں ہی تعلیم چھوڑ دی تھی اور کام کرنے لگ گیا تھا، تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔
راحیل کی اچانک موت سے سارے گھر والے گہرے صدمے میں ہیں اور اس کے ماں باپ کی پوری دنیا ہی اجڑ گئی۔ بچپن سے لے کر اب تک ماں نے خوابوں کا بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ماں کے خوابوں کو پورا ہونے کی ایک امید نظر آ رہی تھی یقیناً ماں کے خواب پورا کرنے کے لئے بیٹے نے بھی ٹھان لی تھی اور ماں کے افسردہ چہرے ماتھے کی جھریاں ہٹانے کے لئے بیٹے کے دل میں بھی کئی خواب تھے، لیکن والدین کے لیے سب سے بڑی مصیبت کی کھڑی اپنے بچے کا جنازہ اٹھتے ہوئے دیکھنا ہوتی ہے اور ماں کے لیے سب سے برداشت آزما وقت بھی یہی ہوتا ہے، لیکن راحیل کی موت سے ماں کے کمر کو خمیدہ ہونے میں بیٹے کی موت ایک اہم رول ادا کر رہی ہے۔ کربناک، المناک، ازیت ناک آزمائش سے ماں کا افسردہ چہرہ اپنے بیٹے کی موت کے غم کا داستان الم خود ہی بیان کر رہی ہے۔