اخبارات اور میڈیا کا بنیادی کردار ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اطلاعات کی فراہمی ہے۔ آزاد میڈیا، حکومت کے اندر ہونے والے کاموں کو عوام کے سامنے لانے میں جو رول ادا کرتا ہے وہ کسی بھی پنپتی ہوئی جمہوریت کیلئے آب حیات کا کام کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپریل میں اس اہم کردار کی نشاندہی کی، جب اس نے ملیالم نیوز چینل ’’میڈیا ون‘‘ پر مرکز کی پابندی کو سختی کے ساتھ کالعدم قرار دیا۔ اس تاریخی فیصلے نے انتظامیہ کے لیے ایک واضح یاد دہانی کا کام کیا کہ قومی سلامتی کے نام پر بھی بغیر کسی ثبوت کے عوام کے حقوق کو پامال نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم سپریم کورٹ کے شاندار پیغام کے باوجود حال ہی میں صحافتی آزادی کا تقدس پامال ہو گیا ہے۔ ابھی پچھلے منگل کو،آن لائن نیوز پورٹل ’’نیوز کلک‘‘ کے دفاتر اور اس کے صحافیوں کی رہائش گاہوں کو دہلی کی خصوصی پولیس یونٹ نے تحقیقاتکا نشانہ بنایا۔
واقعات یوں ہیں کہ پولیس نے ’’نیوز کلک‘‘ کے بانی ایڈیٹر 76 سالہ پربیر پورکایستھ اور تنظیم کے انسانی وسائل کے سربراہ امیت چکرورتی کو گرفتار کیا، جو جسمانی طور پر معذور ہیں۔ وہ دفتر جو 2009 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی تنقیدی صحافت کا گڑھ رہا ہے، جبری طور پر مقفل کر دیا گیا تھا، اور قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے متعدد الیکٹرانک آلات کو پولیس نے ضبط کیا۔ نیوز کلک کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے تنقیدی صحافت کے اصولوں پر مسلسل ایسی کہانیاں پیش کی ہیں جو حکمران انتظامیہ کو پریشان کر رہی ہیں۔ اس میں زراعت کے نقصان دہ قوانین کے خلاف کسانوں کے بھرپور احتجاج کی وسیع کوریج شامل ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا، صحافت افراد اور تنظیموں کی خامیوں کو یکساں طور پر اجاگر کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے مناسب طور پر نوٹ کیا ہے کہ اگر میڈیا کو کنٹرول اور سنسر کیا جائے تو سچائی چھپی رہتی ہے اور جمہوریت کا وقار مجروح ہو جاتا ہے۔ نیوز کلک کے خلاف دلی پولیس کی حالیہ کارروائی پریس کی بنیادی آزادی پر تجاوزات کا ایک عملی نمونہ پیش کر رہی ہے۔
نیوز کلک کے خلاف حالیہ کارروائیاں بدقسمتی سے الگ اور انوکھے واقعات نہیں ہیں بلکہ ہراساں کرنے کی ایک پریشان کن مہم کا حصہ ہیں۔ دو سال قبل، تفتیشی ایجنسیوں، بشمول انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، محکمہ انکم ٹیکس اور دہلی پولیس کے مالیاتی جرائم ونگ نے منی لانڈرنگ کے شبہ میں ’’نیوز کلک‘‘ کے عملے کے دفاتر اور رہائش گاہوں کی تلاشی لی تھی۔ ان تلاشیوں کے دوران، لیپ ٹاپ اور فون ضبط کیے گئے اور کمپنی کے مالی لین دین کی مکمل چھان بین کی گئی۔ کام کاج میں مداخلت کی اس کارروائی کے باوجود نیوز کلک نے اپنا کام جاری رکھا اور یہ باور کرنے کی کوشش کی کہ وہ بے گناہ ہیں کیونکہ حکام مجرمانہ الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ جو چیز اس صورتحال کو مزید تشویشناک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت، تنقید کو غداری اور ملک دشمن پروپیگنڈے کے طور پر دیکھتی ہے، جس سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2021 میں دہلی ہائی کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی اور ای ڈی کو ’’نیوز کلک‘‘ اور اس کے ایڈیٹرز بشمول پربیر پورکیاست کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دینی پڑی۔ تاہم صورتحال اس وقت مزید الجھ گئی جب دہلی پولیس نے اگست میں ’’نیوز کلک‘‘ کے خلاف ’’غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ‘‘ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا، جس میں پورٹل پر ہندوستان میں چین نواز سرگرمیوں کے لیے چین سے فنڈز حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
ایف آئی آر کی کاپی جاری کرنے میں قانون نافذ کرنے والے افسران کی ابتدائی ہچکچاہٹ نے شفافیت اور احتساب کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا۔ اس تشویشناک پیش رفت کے جواب میں متعدد صحافتی انجمنوں نے متحد ہوکر چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کو ایک عرضی بھیجی۔ پٹیشن میں صحافت کو دہشت گردی کا لیبل لگانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور تفتیشی اداروں کے صحافیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو اجاگر کیا گیا۔ اس عرضداشت میں پریس پر اس طرح کے اقدامات کے ہولناک اثرات کو اجاگر کیا گیا اور کہا گیا کہ متعدد صحافی اب اس طرح کام کرنے پر مجبور ہیں کہ انہیں انتقامی کارروائیوں کا مسلسل خطرہ منڈلاتا نظر آتا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور مختلف آراء کا احترام حکمرانی کے بنیادی ستون ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتوں نے اختلافی آوازوں کے ساتھ جڑنے کے بجائے ان پر دبائو ڈالنے کا راستہ منتخب کیا ہے اور اس طرح آزادی صحافت کی بنیاد یعنی عوام کے آزادی سے اظہار خیال کے حق کو مجروح و متاثر کیا ہے۔ تفتیشی ایجنسیوں کو ہتھیار بنا کر، حکمران طبقہ آزادی رائے کے حق پر بیڑیاں لگا رہا ہے جس سے ان جمہوری اقدار کو شدید خطرہ لاحق ہو رہا ہے جو ہمارے معاشرے کے قلب میں ہونی چاہئیں۔