اساک ہرزوگ، اسرائیل میں صدارتی انتخاب میں فاتح ثابت ہوئے ہیں، انہیں ایوان میں 87 ووٹ حاصل ہوا۔ اب ان پر بڑی ذمہ داری ملک میں اتحاد قائم کرنے کی ہوگی کیونکہ ملک گزشتہ دو سالوں سے سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس دوران چار بار ملک میں عام انتخابات ہوئے ہیں اور بنجامن نیتن یاہو کی حکومت ابھی بھی محفوظ نہیں مانی جا رہی ہے۔
یہ انتخاب اسرائیل کی پارلیمنٹ کینیسٹ میں ہوا اور 120 قانون ساز نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔
اس دوران دو امیدوار صدارتی عہدے کے لئے اپنی قسمت آزما رہے تھے، جن میں پہلا نام اساک ہرزوگ کا، جو ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ایک ممتاز اسرائیلی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسرا نام مریم پیریٹز کا تھا جو ایک ماہر تعلیم ہیں اور اسرائیل میں کافی مشہور ہیں۔ لیکن پیریٹز کو 120 سیٹوں والے کینسٹ میں محض 26 ووٹ ہی حاصل ہوئے۔
60 سالہ ہرزوگ اسرائیل کی لیبر پارٹی کے سابق سربراہ اور حزب اختلاف کے رہنما ہیں جو 2013 کے پارلیمانی انتخابات میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کے خلاف مقابلے میں ناکام ہو گئے تھے۔ وہ صیہونیوں کے ایک ممتاز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد چیم ہرزوگ صدر منتخب ہونے سے قبل اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر تھے۔ ان کے چچا ابا ایبان اسرائیل کے پہلے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ اور امریکہ میں سفیر تھے۔ ان کے دادا ملک کے پہلے چیف ربی تھے۔
ہرزگ نے یہودی ایجنسی کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں، یہ ایک غیر منفعتی تنظیم ہے جہاں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد گذشتہ تین سالوں سے اسرائیل میں امیگریشن کو فروغ دینے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہے تھے۔
سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے ان کے گہرے تعلقات کے پیش نظر انہیں جیت کے پسندیدہ امیدوار کے طور پر پہلے ستے ہی دیکھا جارہا تھا۔
67 سالہ پیریز کو قوم پرست امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔