ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں ایک شادی کی تقریب میں پہنچے معروف عالم دین و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ مدارس کے لئے جتنی بھی سہولیات حکومت فراہم کرے اتنا ہی بہتر ہے اور یہ مطالبہ بہت پہلے سے کیا جارہا ہے کہ 'مدارس کی تعلیمی اسناد کو صرف دوسرے اداروں میں داخلہ کے لیے ہی نہ مانا جائے بلکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی اسناد کی طرح مدارس کی ڈگریز کو بھی سرکاری ملازمت کے لئے اور جنرل تمام ملازمتوں کے لیے قبول کیا جائے۔
مولانا نے کہا کہ 'تمام تحقیقات و رپورٹس اس بات کی شاہد ہیں کہ اکثریتی طبقہ کے مقابلے اقلیتی طبقہ میں طلاق کی شرح پہلے سے ہی بہت کم ہے اس لئے طلاق ثلاثہ قانون کی وجہ سے کہیں نہ کہیں مسلم خواتین کی راہ میں بڑے پیمانے پر دقت پیدا ہوگئی ہے وہ خواتین جو اپنے شوہر سے نجات چاہتی ہیں ان کو شوہر طلاق دے نہیں رہا ہے کہ کہیں اسے جیل نہ جانا پڑجائے اور خواتین در در بھٹکنے پر مجبور ہیں اس لئے اس قانون سے مسلم خواتین کو کتنا فائدہ حاصل ہوا ہے یہ جواب خواتین کو ہی دینا پڑے گا۔
انہوں نے آبادی کنٹرول ڈرافٹ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں نہیں لگتا ہے کہ حکومتِ وقت کے پاس اتنا وقت بچا ہے کہ اسے وہ قانونی شکل دے سکے، رہی بات فائدہ یا نقصان کی تو اس قانون کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک فیصد بھی نقصان نہیں ہونے والا ہے بلکہ اکثریتی طبقہ کو اس قانون سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا کیونکہ مسلمان پہلے سے ہی سرکاری نوکریوں میں صفر ہے اس لئے اس سے مسلمانوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دوسری طرف سروے رپورٹس و مردم شماری رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا آبادی میں گروتھ ریٹ پہلے سے کم ہوا ہے بلکہ اکثریتی طبقہ سے متعلق ہمیشہ سے ان کے رہنماؤں نے بیان دیا ہے کہ اکثریتی طبقہ آبادی بڑھانے پر زور دے اس لیے مولانا نے کہا کہ مسلمانوں کو اس ڈرافٹ سے خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔