اردو

urdu

By

Published : Aug 1, 2021, 8:08 PM IST

ETV Bharat / city

مولانا خالد رشید فرنگی محلی سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ بڑے مدارس کا تعلیمی معیار پہلے سے بہتر ہورہا ہے جب کہ گاؤں دیہات کے مکاتب کے تعلیمی معیار پر علماء اور عوام کو دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے.

مولانا خالد رشید فرنگی محلی سے خصوصی گفتگو
مولانا خالد رشید فرنگی محلی سے خصوصی گفتگو

ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں ایک شادی کی تقریب میں پہنچے معروف عالم دین و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ مدارس کے لئے جتنی بھی سہولیات حکومت فراہم کرے اتنا ہی بہتر ہے اور یہ مطالبہ بہت پہلے سے کیا جارہا ہے کہ 'مدارس کی تعلیمی اسناد کو صرف دوسرے اداروں میں داخلہ کے لیے ہی نہ مانا جائے بلکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی اسناد کی طرح مدارس کی ڈگریز کو بھی سرکاری ملازمت کے لئے اور جنرل تمام ملازمتوں کے لیے قبول کیا جائے۔

مولانا خالد رشید فرنگی محلی سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو

مولانا نے کہا کہ 'تمام تحقیقات و رپورٹس اس بات کی شاہد ہیں کہ اکثریتی طبقہ کے مقابلے اقلیتی طبقہ میں طلاق کی شرح پہلے سے ہی بہت کم ہے اس لئے طلاق ثلاثہ قانون کی وجہ سے کہیں نہ کہیں مسلم خواتین کی راہ میں بڑے پیمانے پر دقت پیدا ہوگئی ہے وہ خواتین جو اپنے شوہر سے نجات چاہتی ہیں ان کو شوہر طلاق دے نہیں رہا ہے کہ کہیں اسے جیل نہ جانا پڑجائے اور خواتین در در بھٹکنے پر مجبور ہیں اس لئے اس قانون سے مسلم خواتین کو کتنا فائدہ حاصل ہوا ہے یہ جواب خواتین کو ہی دینا پڑے گا۔

انہوں نے آبادی کنٹرول ڈرافٹ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں نہیں لگتا ہے کہ حکومتِ وقت کے پاس اتنا وقت بچا ہے کہ اسے وہ قانونی شکل دے سکے، رہی بات فائدہ یا نقصان کی تو اس قانون کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک فیصد بھی نقصان نہیں ہونے والا ہے بلکہ اکثریتی طبقہ کو اس قانون سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا کیونکہ مسلمان پہلے سے ہی سرکاری نوکریوں میں صفر ہے اس لئے اس سے مسلمانوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دوسری طرف سروے رپورٹس و مردم شماری رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا آبادی میں گروتھ ریٹ پہلے سے کم ہوا ہے بلکہ اکثریتی طبقہ سے متعلق ہمیشہ سے ان کے رہنماؤں نے بیان دیا ہے کہ اکثریتی طبقہ آبادی بڑھانے پر زور دے اس لیے مولانا نے کہا کہ مسلمانوں کو اس ڈرافٹ سے خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔

مدارس سے متعلق بات کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ بڑے مدارس کا تعلیمی معیار پہلے سے اور بہتر ہورہا ہے جب کہ گاؤں دیہات کے مکاتب کے تعلیمی معیار پر علماء اور عوام کو دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کے انتخابات میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب جب مسلمانوں کی مذہبی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت وجود میں آئی تو کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے اس لئے ایک سیکولر ملک میں مدوں پر لڑائی ہونی چاہئے مذہب کی بنیاد پر نہیں۔

مزید پڑھیں:مولانا سلمان ندوی سے یوپی اسمبلی انتخابات سے متعلق خاص بات چیت

انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا اپنی سیاسی جماعت یا قائد بنانا قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ 2022 اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں مسلمانوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو سب سے پہلے ووٹر لسٹ میں اپنا درست نام درج کرانا چاہئے اور ووٹ کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور الیکشن کے دن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھ کر ووٹ کریں کہ ماضی میں کس سیاسی جماعت نے ملک و صوبے کی ترقی کے لیے کام کیا ہے اور کون سی سیاسی جماعت مستقبل کے لئے بہتر ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details