دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے 34 ویں اجلاس عام کے اختتام کے بعد قوم کے نام جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پورے ملک کے لیے نقصان عظیم تصور کرتی ہے، جو ہماری دیرینہ وراثت سے میل نہیں کھاتی۔ یہ پیغام آج دہلی کے رام لیلا میدان میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے پڑھ کر سنایا، جہاں سبھی مذاہب کے رہ نما موجود تھے۔ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے باضـابطہ عہد نامہ پیش کیا، جس کی لفظ بہ لفظ دوہرا کر پورے مجمع نے کھڑے ہو کر تائید کی۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا محمود اسعد مدنی نے کی، رام لیلا میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جہاں دو لاکھ لوگ موجود تھے۔ لوگوں نے عہد لیا کہ وہ مذہبی رہ نمائوں اور مقدس کتابوں کا کبھی اپمان نہیں کریں گے، نفرت سے سماج کو آزاد کریں گے اور ملک کی حفاظت، کے لیے کوششیں کریں گے۔
قوم کے نام جاری پیغام میں مزید کہا گیا کہ مختلف مذاہب کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رشتے ہمارے معاشرے کی قابل فخر اور پائیدار خصوصیات ہیں۔ان رشتوں میں دراڑ پیدا کرنا قومی جرم ہے۔ تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد کو چاہیے کہ متحد ہوکر شدت پسند اور تقسیم کرنے والی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اورملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
پیغام میں بالخصوص نوجوانوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ ہمارے وطن کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے ، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، انھیں نہ تو مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی صبر و ہوش کا دامن چھوڑنا چاہیے۔ جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسندی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں وہ نہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہمارے تعاون اور حمایت کی حق دار ہیں۔ اس کے برخلاف وطن کے لیے جاں نثاری ، وفاداری اور حب الوطنی ہمارا ملکی و دینی فریضہ ہے ، ہمارا دین اور ہمارا ملک سب سے پہلے ہے، یہی ہمارا نعرہ ہے۔ بھارت، تنوعات اور تکثیری معاشرے کا حامل خوبصورت ملک ہے ،اس کی خصوصیات میں سے بڑی خصوصیت تمام افکار و اعمال اور مراسم کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے اور نظریے پر چلنے کی آزادی ہے، اسے بچانے کے لیے گاندھی جی وغیرہ نے ان تھک کوششیں کی ہیں۔ اس کے مدمقابل کبھی اسلام، کبھی ہندو تو اور کبھی عیسائیت کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارا اختلاف نظریے پر مبنی ہے۔ ہماری نظر میں بھارت کے سبھی مذہبوں کے ماننے والے چاہے وہ ہندو ہوں،یا مسلمان یا پھر سکھ، بودھ ، جین ، عیسائی سبھی برابر کے شہری ہیں، ہم انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور نہ نسلی برتری کو تسلیم کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک کے حالیہ ایسے بیانات کا جن سے باہمی میل جول اور قومی یک جہتی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہم استقبال کرتے ہیں۔
عدالتوں کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصے سے یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ عدالتیں ریاست کے دباو میں کام کر رہی ہیں، یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ عدالت آزاد نہیں تو ملک بھی آزاد نہیں۔ پیغام میں بالخصوص ملک میں جاری پسماندہ مسلم کے بحث پر کہا گیا کہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات اور نسلی عدم تفریق پر مبنی ہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں پسماندہ برادریو ں کاوجود زمینی حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پسماندہ برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک مذہبی، اخلاقی اور انسانی نقطہ نظر سے قابل مذمت ہے۔ اجلاس عام کے موقع پر ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ جو زیادتیاں ذات پات کے نام پر ہوئی ہیں، ان پر ہمیں شرمندگی ہے اور ان کو دور کرنے کا ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں معاشی، سماجی، تعلیمی ہر زاویے سے مساوات قائم کرنے کی ہر ممکن جد وجہد کریں گے۔ پسماندہ برادریوں کو ترقی دینے کے لیے سرکار نے ابھی حال میں جو بیان دیا ہے، اس کے لیے ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے جلد عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
معاشی ابتری، مہنگائی اور بیروزگاری ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ غریبی اور بے روزگای کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے ہماری ترقی کے تمام دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کو لے کر پیغام دیا گیا کہ ہم مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کے لیے اسلامی شریعت کے مقرر کردہ کوڈ کو عملی طور پر نافذ کریں۔ میراث کی تقسیم میں عورتوں کو محروم رکھنا ، طلاق دینے اور نان ونفقہ کے سلسلے میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی اور عام طور پر معاشرے میں ان کے ساتھ ناانصافی کے خلاف خود مسلمانوں کو پورے ملک میں تحریک چلانے اور ضروری اصلاحات کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے پرسنل لا میں مداخلت کی گنجائش نہ رہے۔
اس پیغام سے قبل ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ مذاہب کے قومی رہ نمائوں نے خطاب کیا۔سوامی چدانند سرسوتی مہاراج، صدر پرمارتھ نکیتن رشی کیشنے مسائل کو مشترکہ طور سے حل کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ دو باتیں ہیں ، ایک یہ ہے کہ ہم پیار سے جئیں اور دوسرا ہے کہ ہم لڑ کر جئیں، لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ لڑ کر ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔لڑنے کی وجہ سے ملک دو حصوں میں بنٹ گیا ۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ ماضی کو بھلادیں اور پیار و محبت سے رہیں۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ان تنظیموں میں سے ہے کہ جب ملک کی تقسیم کی بات آئی ، تو اس نے شدت سے مخالفت کی۔ آج کے دور میں ہمیں یکتا کی حفاظت کرنی ہے اور اس دیش کی تقدیر اور تصویر بدلنی ہے۔انھوں نے پیار ومحبت سے رہنے کی تلقین کی اور مولانا مدنی کے بیانوں کی جم کر تعریف کی۔