اردو

urdu

Jamiat Ulema E Hind Meeting Concluded جمعیۃ کا تین روزہ 34واں اجلاس عام اختتام پذیر

By

Published : Feb 12, 2023, 10:55 PM IST

جمعیۃ علماء ہند کا تین روزہ اجلاس سنکلپ اور ملک و ملت کے نام ایک اہم پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ ملک میں سدبھاؤنا کی تحریک چلانے پر مبنی تجویز کو پیش کرتے ہوئے مولانا محمد جاوید صدیقی قاسمی نے کہا کہ ملک میں نفرت و عداوت کو ختم کرنے کے لیے بین مذاہب اختلافی مسائل کو آپسی بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیۃ علما ء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین نے جمعیت یوتھ کلب اور سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں اجلاس مولانا محمد ابوالقاسم نعمانی کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔

Jamiat Ulema E Hind Meeting Concluded
Jamiat Ulema E Hind Meeting Concluded

جمعیۃ کا تین روزہ 34واں اجلاس عام اختتام پذیر

دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے 34 ویں اجلاس عام کے اختتام کے بعد قوم کے نام جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پورے ملک کے لیے نقصان عظیم تصور کرتی ہے، جو ہماری دیرینہ وراثت سے میل نہیں کھاتی۔ یہ پیغام آج دہلی کے رام لیلا میدان میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے پڑھ کر سنایا، جہاں سبھی مذاہب کے رہ نما موجود تھے۔ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے باضـابطہ عہد نامہ پیش کیا، جس کی لفظ بہ لفظ دوہرا کر پورے مجمع نے کھڑے ہو کر تائید کی۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا محمود اسعد مدنی نے کی، رام لیلا میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جہاں دو لاکھ لوگ موجود تھے۔ لوگوں نے عہد لیا کہ وہ مذہبی رہ نمائوں اور مقدس کتابوں کا کبھی اپمان نہیں کریں گے، نفرت سے سماج کو آزاد کریں گے اور ملک کی حفاظت، کے لیے کوششیں کریں گے۔

قوم کے نام جاری پیغام میں مزید کہا گیا کہ مختلف مذاہب کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رشتے ہمارے معاشرے کی قابل فخر اور پائیدار خصوصیات ہیں۔ان رشتوں میں دراڑ پیدا کرنا قومی جرم ہے۔ تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد کو چاہیے کہ متحد ہوکر شدت پسند اور تقسیم کرنے والی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اورملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔

پیغام میں بالخصوص نوجوانوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ ہمارے وطن کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے ، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، انھیں نہ تو مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی صبر و ہوش کا دامن چھوڑنا چاہیے۔ جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسندی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں وہ نہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہمارے تعاون اور حمایت کی حق دار ہیں۔ اس کے برخلاف وطن کے لیے جاں نثاری ، وفاداری اور حب الوطنی ہمارا ملکی و دینی فریضہ ہے ، ہمارا دین اور ہمارا ملک سب سے پہلے ہے، یہی ہمارا نعرہ ہے۔ بھارت، تنوعات اور تکثیری معاشرے کا حامل خوبصورت ملک ہے ،اس کی خصوصیات میں سے بڑی خصوصیت تمام افکار و اعمال اور مراسم کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے اور نظریے پر چلنے کی آزادی ہے، اسے بچانے کے لیے گاندھی جی وغیرہ نے ان تھک کوششیں کی ہیں۔ اس کے مدمقابل کبھی اسلام، کبھی ہندو تو اور کبھی عیسائیت کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارا اختلاف نظریے پر مبنی ہے۔ ہماری نظر میں بھارت کے سبھی مذہبوں کے ماننے والے چاہے وہ ہندو ہوں،یا مسلمان یا پھر سکھ، بودھ ، جین ، عیسائی سبھی برابر کے شہری ہیں، ہم انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور نہ نسلی برتری کو تسلیم کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک کے حالیہ ایسے بیانات کا جن سے باہمی میل جول اور قومی یک جہتی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہم استقبال کرتے ہیں۔

عدالتوں کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصے سے یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ عدالتیں ریاست کے دباو میں کام کر رہی ہیں، یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ عدالت آزاد نہیں تو ملک بھی آزاد نہیں۔ پیغام میں بالخصوص ملک میں جاری پسماندہ مسلم کے بحث پر کہا گیا کہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات اور نسلی عدم تفریق پر مبنی ہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں پسماندہ برادریو ں کاوجود زمینی حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پسماندہ برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک مذہبی، اخلاقی اور انسانی نقطہ نظر سے قابل مذمت ہے۔ اجلاس عام کے موقع پر ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ جو زیادتیاں ذات پات کے نام پر ہوئی ہیں، ان پر ہمیں شرمندگی ہے اور ان کو دور کرنے کا ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں معاشی، سماجی، تعلیمی ہر زاویے سے مساوات قائم کرنے کی ہر ممکن جد وجہد کریں گے۔ پسماندہ برادریوں کو ترقی دینے کے لیے سرکار نے ابھی حال میں جو بیان دیا ہے، اس کے لیے ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے جلد عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

معاشی ابتری، مہنگائی اور بیروزگاری ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ غریبی اور بے روزگای کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے ہماری ترقی کے تمام دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کو لے کر پیغام دیا گیا کہ ہم مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کے لیے اسلامی شریعت کے مقرر کردہ کوڈ کو عملی طور پر نافذ کریں۔ میراث کی تقسیم میں عورتوں کو محروم رکھنا ، طلاق دینے اور نان ونفقہ کے سلسلے میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی اور عام طور پر معاشرے میں ان کے ساتھ ناانصافی کے خلاف خود مسلمانوں کو پورے ملک میں تحریک چلانے اور ضروری اصلاحات کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے پرسنل لا میں مداخلت کی گنجائش نہ رہے۔

اس پیغام سے قبل ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ مذاہب کے قومی رہ نمائوں نے خطاب کیا۔سوامی چدانند سرسوتی مہاراج، صدر پرمارتھ نکیتن رشی کیشنے مسائل کو مشترکہ طور سے حل کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ دو باتیں ہیں ، ایک یہ ہے کہ ہم پیار سے جئیں اور دوسرا ہے کہ ہم لڑ کر جئیں، لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ لڑ کر ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔لڑنے کی وجہ سے ملک دو حصوں میں بنٹ گیا ۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ ماضی کو بھلادیں اور پیار و محبت سے رہیں۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ان تنظیموں میں سے ہے کہ جب ملک کی تقسیم کی بات آئی ، تو اس نے شدت سے مخالفت کی۔ آج کے دور میں ہمیں یکتا کی حفاظت کرنی ہے اور اس دیش کی تقدیر اور تصویر بدلنی ہے۔انھوں نے پیار ومحبت سے رہنے کی تلقین کی اور مولانا مدنی کے بیانوں کی جم کر تعریف کی۔

قبل ازیں امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ نے کہا کہ 1400 سال سے ملک کے ہر گاؤں میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ نے آخری نبی کو سرزمین عرب پر بھیجا، اسی طرح سرزمین ہند پر پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کا نزول ہوا۔ آدم وہ پہلے آدمی تھے جو آسمان سے آئے۔ انھوں نے کہا کہ میں فرقہ واریت کے خلاف رہا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ جو فرقہ پرست ہے وہ ملک دشمن ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گھر، دکان، بازار، کھیت جہاں کہیں بھی ہوں محبت کا پیغام پھیلائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کو نفرت کے دور سے نکالے۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے عوام سے اپیل کی کہ اجلاس کی تمام تجاویز کو پورے ملک میں پھیلائیں اور انھیں عملی جامہ پہنائیں۔ انھوں نے کہا کہ جتنے کام کیے جارہے ہیں یہ سب تدابیر ہیں، تدابیر میں جان ڈالنے کے لیے ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے اور معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے۔ مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ اعلامیہ کے مطابق ہم سب کو کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مختلف مذاہب والوں کو ڈائیلاگ میں حصہ لے کر اپنے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ڈائیلوگ ایک بڑی طاقت ہے، اسے نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی صدر جمعیت مرکزی اہل حدیث ہند نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا ملک آج جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملت کے دانشوران سر جوڑ کر اکٹھے ہوں اور ملک و ملت اور انسانیت کو درپیش مسائل سے متعلق خون جگر جلا کر اپنے اسلاف کے کارناموں کو سامنے رکھ کر حقیقی اقدام کریں۔

دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ ملک کی جو صورت حال ہے وہ بے حد تشویش ناک ہے، اس وقت جس بیدار معزی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند نے قوم کو رہ نمائی کا کام کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے، انھوں نے کہا کہ اپنی مرکزیت کو اپنے قول و فعل سے مضبوط کریں، کیوں کہ مرکزیت سے ا لگ رہ کر ہماری آواز بے معنی رہے گی اور نہ ہم کسی پر اثرا نداز ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف سے اور اپنی جماعت کی طرف سے جمعیۃ کی تجاویز کی تائید کی۔ انھوں نے کہا کہ حالات کوئی نئے نہیں بلکہ ہر دور میں آئے ہیں، لیکن اصحاب عزیمت نے ہر دور میں سہارا دیا۔

نائب امیر الہند مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے تلقین کی کہ مسلمانوں کو موجودہ حالات و مصائب سے گھبرانے کے بجائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔ فرید نظامی درگاہ حضرت نظام الدین محبوب اولیاء نے آج کے اجلاس کے ایجنڈا کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اوقاف کا تحفظ بہت ضروری ہے آج ہمارے پاس چھ لاکھ سے زائد پراپرٹی ہمارے ہیں، مگر حقیقت میں ان میں سے زیادہ اپنے مقصد میں استعمال نہیں ہورہے ہیں۔ امیر الحسن نے اس ملک کو راہ دکھائیں گے، انھوں نے جمعیۃ کی طرف سے پیش کردہ لائحہ عمل کی تائید کی۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے، اس لیے ہماری بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اچھا سے اچھا کردار پیش کریں۔مولانا افتخار قاسمی صدر جمعیۃ علماء کرناٹک نے کہا کہ ہم لوگوں کو ملک کے برادران وطن کے ساتھ مل کر نفرت کی بیج بونے والی طاقتوں کو ختم کریں۔

مفتی شمس الدین بجلی جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء کرناٹک یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت پر مبنی تجویز کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مداخلت ہے جو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قانون الہی میں ناقابل تغیر ہونے کی وجہ سے جہاں شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے وہیں یہ جمہوری دستور و آئین کی روح اور مسلم حقوق کے لیے دی گئی ضمانتوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اس لیے حکومت کو تنبیہ کی جاتی ہے۔ اچاریہ لوکیش منی دھرم گرو جین مندر نے اپنے تاثراتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سبھی مذاہب کا مجموعہ ہے ، اس لیے یہاں اتفاق و اتحاد کی بات ہوتی ہے اور ہم اس کی بھر پور تائید کرتے ہیں۔

سردار پرم جیت سنگھ صدر گردوارہ پر بندھک کمیٹی نے کہا کہ تقسیم ہند نے صرف نفرت ہی میں اضافہ کیا ہے، آج اس کو مٹانے کے لیے سب کو جد وجہد کرنی ہے۔ بھارتیہ سرو دھرم سنسد کے صدر گوسوجامی سوشیل جی مہارا ج نے کہا کہ یہاں سب دھرموں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ اگر مسلمانوں پر آنچ آتی ہے تو ہم پر بھی آنچ آتی ہے اور ہم کو بھی دکھ ہوتا ہے- ملک کو کسی قیمت پر ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ مفتی مکرم جامع مسجد فتح پوری نے کہا کہ ہم مذہبی لوگ ہیں، ہمیں کسی سے جھگڑا نہیں ہے، بلکہ ہم تو ہر جھگڑے کے مخالف ہیں۔مولانا انوار الرحمن رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے تائیدی خطاب پیش کئے۔ جمعیۃ نے اپنی ایک تجویز میں اپیل کی کہ ملک کے صاحب ثروت افراد لڑکیوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے پر خصوصی توجہ دیں، اس تجویز کو حاجی محمد ہارون صدر جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش نے پیش کیا۔ اس کی تائید مفتی شبیر احمد مفتی مدرسہ شاہی مرادآباد نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: Jamiat Ulem-e-Hind Chief Controversy مولانا ارشد مدنی کا جمعیت کے اجلاس میں خطاب اور تنازع، جانیے پوری تفصیل

ملک میں سدبھاؤنا کی تحریک چلانے پر مبنی تجویز کو پیش کرتے ہوئے مولانا محمد جاوید صدیقی قاسمی نے کہا کہ ملک میں نفرت و عداوت کو ختم کرنے کے لیے بین مذاہب اختلافی مسائل کو آپسی بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیۃ علما ء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین نے جمعیت یوتھ کلب اور سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں اجلاس مولانا محمد ابوالقاسم نعمانی کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details