قومی دارالحکومت دہلی میں واقع شاہی جامع مسجد بھارت کے ان قیمتی ورثوں میں سے ایک ہے جس پر آج بھی بھارت کو فخر ہے۔ India Still Proudly Boasts Jama masjid
فن تعمیر کی عظیم شاہکار ہونے کے علاوہ شاہی جامع مسجد کو سیاسی و ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے۔ تاہم بھارت کی جنگ آزدی شاہی جامع مسجد کا جو کردار رہا، اس سے آج بھی بہت سارے سے لوگ ناواقف ہیں۔ جامع مسجد کی یہ نادر تاریخی کہانی کسی خزانہ سے کم نہیں ہے۔ تو آئیے جانتتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں دہلی کی جامع مسجد کا کیا رول رہا۔ Magnificient Jama Masjid link to freedom struggle
آزادی کی جد و جہد میں جامع مسجد لاکھوں انقلابیوں کی پناہ گاہ بنی۔ اسی وجہ سے انگریزوں نے جامع مسجد کو طویل عرصے تک بند رکھا۔ طویل بندش کے بعد سنہ 1962 میں مسجد کو نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا۔
انقلاب اور بھارت کی آزادی کے علاوہ تقسیم ہند کے دوران بھی مسجد نے عوام تک مثبت پیغام پہنچایا۔ سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد جب بھارتی مسلمان سیاسی طور پر الجھن میں پھنسے ہوئے تھے کہ انہیں ملک چھوڑنا ہے یا نہیں۔ تب مولانا ابوالکلام آزاد نے اسی جامع مسجد کے احاطے سے بھارتی مسلمانوں کو خطاب کیا۔
مولانا نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ اب بھارتی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ مسلم لیگ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم یہاں ہندوستانی کے طور پر ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے ہندستان سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ مولانا آزاد نے اپنی تقریر میں بھارتی مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔
آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والے فوجیوں کی پناہ گاہ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کے علاوہ یہاں سے ایک اور انقلابی کہانی کی شروعات ہوئی۔ ایک غیر مسلم پنڈت یعنی سوامی شردھانند سرسوتی نے مسجد کی سیٹرھیوں سے ہندو مسلم اتحاد یعنی گنگا جمونی تہذیب کا پیغام دیا۔
یہ ہندستان کی سماجی و سیاسی محرکات کے لیے ایک اہم وقت تھا، کیوں کہ تب ملک میں ہندو مسلم بھائی چارے کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ ان کی تقریر شاید ہندوستان کی تاریخ کی سب سے شاندار تقریروں میں سے ایک تھی، جہاں بھگوا پوش ہندو پنڈت نے مسجد کی سیڑھیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا پیغام دیا تھا۔
آج بھی مختلف مواقع پر جامع مسجد کی بنیاد ہندوستانیت کے تانے بانے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، یوم آزادی کا جشن جامع مسجد کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔