دہلی: ملک گیر پیمانے پر شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا جا چکا ہے، شہریت ترمیمی قانون کو ایسے وقت میں نافذ کیا گیا جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہونے کو تھا اور لوک سبھا انتخابات بھی ہونے ہیں ایسے میں اس قانون کی مخالفت بھی اس طرز پر نہیں کی گئی جیسے سال 2019 میں کی گئی تھی۔ ایسے میں جہاں ایک طرف تمام ملی جماعتوں کی جانب سے مرکزی حکومت کو خط لکھ کر اس قانون کی مخالفت کی گئی اور سڑک پر اتر کر احتجاج کرنے کی دھمکی دی گئی ہے وہیں سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ انس تنویر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اس وقت حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بالکل بھی احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔
ایڈووکیٹ انس تنویر کے مطابق سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 237 پیٹیشن داخل کی جا چکی ہے اور یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ ایسے میں ابھی اس پر کسی بھی طرح کا ردعمل کا اظہار کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی اگر مسلمان سڑکوں پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے اترتے ہیں تو اس کے سبب لوک سبھا انتخابات میں بھی حکمراں جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ - against Citizenship Amendment Act
مسلمانوں کو ہوش میں رہ کر ایک جامع حکمت عملی کے تحت لوک سبھا کے انتخابات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ اس میں حکمراں جماعت کو شکست سے دوچار ہونا پڑے۔ شہریت ترمیمی قانون حقیقتا انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
Published : Mar 27, 2024, 11:01 PM IST
ایڈووکیٹ انس تنویر نے واضح طور پر کہا کہ اگر مسلمان سڑکوں پر اترتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے ایسے میں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے اور بی جے پی تو چاہتی ہی ہے کہ مسلمان سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کریں اس دوران بی جے پی اپنا ہندو مسلم کارڈ کھیل کر لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے۔ اسی لیے مسلمانوں کو ہوش میں رہ کر ایک جامع حکمت عملی کے تحت لوک سبھا کے انتخابات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ اس میں حکمراں جماعت کو شکست سے دوچار ہونا پڑے۔