گیا:ریاست بہار کے گیا ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 40 کلومیٹر دور شیر گھاٹی سب ڈویژن کے حمزہ پور میں واقع حضرت قمر علی سلطان کا مقبرہ ہے، جو اپنے آپ میں ایک تاریخی اور مثالی ہے۔ مورہر ندی کے کنارے بنے اس مقبرے کو ضلع گیا کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ مغل حکمراں اورنگ زیب نے بنوایا تھا۔ قمر علی اور سلطان علی کا مقبرہ 400 سال سے زیادہ پرانا بتایا جاتا ہے۔ قمر علی اور سلطان علی مغلیہ حکومت کی فوج کے سپہ سالار تھے اور وہ پائے کے بزرگ بھی تھے۔ فوج لیکر یہاں کے ایک ظالم حکمران سے لڑنے آئے تھے لیکن بعد میں یہیں سکونت اختیار کرلی۔ اس تاریخی مقبرے کو محکمۂ آثار قدیمہ میں شامل کرنے کی مانگ برسوں سے ہورہی تھی، کئی بار محکمۂ آثار قدیمہ کی ٹیم نے یہاں پہنچ کر جائزہ بھی لیا تھا۔ کاغذات اور شواہد کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد آخر کار ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ آف آرٹ کلچر اینڈ یوتھ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ گزشتہ روز محکمۂ آثار قدیمہ کی جانب سے ایک بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔
گیا میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل (ETV Bharat Urdu) اب اس مقبرے کی دیکھ بھال محکمۂ آثار قدیمہ آف آرٹ کلچر کی طرف سے کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اس کی دیکھ ریکھ مقامی کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا تھا۔ اس کو لے کر مقبرے کے احاطے میں محکمہ کا ایک بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اس مقبرے کو بہار قدیم یادگار اور آثار قدیمہ کے مقامات کے باقیات ایکٹ 1976 کے تحت ریاستی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ جو کوئی بھی اس یادگار کو تباہ کرتا ہے، ہٹاتا ہے، نقصان کرتا ہے، بدلتا ہے، بگاڑتا ہے، اس یادگار کو خطرے میں ڈالتا ہے یا اس کا استعمال کرتا ہے، تو اسے اس حرکت کے لیے کاروائی کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی مدت 3 سال تک ہوسکتی ہے یا وہ جرمانے کا حصہ بھی ہو گا۔ 5000 روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں۔
گیا میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل (ETV Bharat Urdu) گیا میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل (ETV Bharat Urdu) افغان فن تعمیر کا ہے نمونہ قمر علی سلطان کا مقبرہ فن تعمیر کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تاریخ مغلیہ سلطنت دور کی ہے اور اس کا اسٹریکچر میسوپوٹیمیا اور افغان فن تعمیر کا نمونہ بھی ہے۔ مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل ہے اور اسے افغان اور میسوپوٹیمیا فن تعمیر کا بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ آج اس مزار میں بہار، جھارکھنڈ، اتر پردیش اور بنگال سے لوگ یہاں آتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ سچی عقیدت سے یہاں لوگوں کی منتیں بھی پوری ہوتی ہیں۔
گیا میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل (ETV Bharat Urdu) گیا میں واقع قمر علی سلطان کا مقبرہ محکمۂ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل (ETV Bharat Urdu) ہندو مسلم ایکتا کی ہے مثالیہ مقبرہ ہندو مسلم ایکتا کی مثال بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سبھی مذہب کے لوگ اپنی پریشانیوں سے راحت کی امید لے کر پہنچتے ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بادشاہ شیر شاہ سوری بھی اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے آتے تھے۔ اس مقبرہ کو شیر گھاٹی کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ مقبرے کے خادم سید محمد علاء الدین بتاتے ہیں کہ اس مقبرے کی تاریخ کو جان کر محکمۂ آثار قدیمہ کے افسران بھی پہنچ چکے ہیں۔ اس مقبرے کو شیر گھاٹی کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مور ہر ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کا گنبد تاج محل کے گنبد سے ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Qamar Ali Sultan Tomb شیرگھاٹی کے تاج محل کے نام سے معروف ہے قمرعلی سلطان کا مقبرہ
تاریخ میں ہے تضاد
خاص بات یہ ہے کہ میسوپوٹیمیا اور افغان فن تعمیر کا نمونہ ہونے کے باوجود اس کے پختہ ثبوت نہیں ہیں کہ کس بادشاہ کے زمانے میں اس کی تعمیر ہوئی ہے، لیکن شیرگھاٹی کے باشندوں کے درمیان بادشاہ شیرشاہ سوری کے ذریعے ہی تعمیر کرائے جانے کی بات گشت کرتی ہے۔ تاہم ایک طبقہ اس کو اورنگ زیب کے ذریعے تعمیر کرانے کی تاریخ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اسی وجہ سے اس کو شیر گھاٹی کا ' تاج محل ' بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے گنبدکی مشابہت تاج محل سے ہے اور جس جگہ پر یہ آستانہ واقع ہے وہ جغرافی اعتبار سے تاج محل کی طرح ہی ندی کے کنارے پر واقع ہے۔