نئی دہلی: سپریم کورٹ نے لکھنؤ کے اکبر نگر کی غیر قانونی کالونیوں کو گرانے سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو لکھنؤ کے اکبر نگر میں لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے انہدامی کارروائی کے فیصلے کو برقرار رکھا، جس سے کئی ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ سے متفق ہے، جس نے کہا تھا کہ کالونی سیلاب والے زون میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ حکم جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے دیا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے سے اتفاق
سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے متفق ہے کہ کالونی فلڈ زون میں تعمیر کی گئی تھی اور درخواست گزاروں کے پاس کوئی دستاویز یا ملکیت نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم کالونی کو بے دخلی کرنے یا اسے منہدم کرنے کے اس معاملے میں مداخلت نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ متاثرہ افراد کو متبادل رہائش مل رہی ہے۔
- مالکانہ حقوق بل اور ٹیکس ادا کرنے سے نہیں ملتے
اسی دوران درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے عدالت کے سامنے دلیل دی کہ لوگ یہاں 40 سال سے رہ رہے ہیں اور ٹیکس کے ساتھ بجلی کے بل بھی ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس پر جسٹس کھنہ نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے زمین کے مالکانہ حقوق مل گئے۔ بنچ نے کہا کہ 1500 درخواستیں متبادل رہائش کے لیے اہل پائی گئیں اور 706 متعلقہ حکام کے زیر تفتیش ہیں۔ حکام کی طرف سے مناسب تحقیقات کی جانی چاہیے اور رہائشیوں کو اس وقت تک نہ ہٹایا جائے جب تک متبادل رہائش نہیں مل جاتی۔ متبادل رہائش دیے جانے کے بعد رہائشیوں کو قبضہ حوالے کرنا پڑے گا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی قانون کے مطابق کارروائی کر سکتی ہے۔