رانچی:اقلیتوں کو لے کر بھلے ہی سیاست ہوتی رہی ہو، لیکن جب حصہ داری اور نمائندگی کی بات آتی ہے تو یہ طبقہ جھارکھنڈ کی آبادی کے تناسب سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے جو کہ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدوار کھڑے کرنے کی بات آتی ہے تو کہیں نہ کہیں اس طبقے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے کانگریس کے فرقان انصاری واحد مسلم ایم پی ہیں۔ وہ 2004 میں گوڈا سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
- لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی میں بھی کم نمائندگی
لوک سبھا کو بھول جائیں۔ ریاستی اسمبلی میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ ریاست میں 2005 میں ہوئے پہلے اسمبلی انتخابات میں صرف دو مسلمان ایم ایل اے بنے تھے۔ تاہم 2009 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد بڑھ کر 5 ہو گئی۔ ان پانچ میں سے دو کانگریس سے، دو جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے اور ایک بابولال مرانڈی کی پارٹی جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے تھے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد دوبارہ گھٹ کر دو پر آگئی۔ کانگریس کے عالمگیر عالم اور عرفان انصاری جیتنے میں کامیاب رہے باقی سبھی مسلم امیدوار ہار گئے۔ 2019 کی بات کریں تو چار مسلمان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
- بی جے پی نے ایک بار پھر مسلمانوں سے دوری اختیار کی
لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے امیدواروں کا اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی ایک بار پھر مسلم امیدواروں سے دوری بناتی نظر آرہی ہے۔ جھارکھنڈ میں تصویر پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی نے ایک مسلم بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔