لکھنؤ: راجدھانی کے چنہٹ تھانے کے لاک اپ میں کاروباری موہت پانڈے کی موت کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔ اپوزیشن اس معاملے پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ وہیں معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سی ایم یوگی اور بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر سنگھ چودھری پیر کو متاثرہ خاندان کو تسلی دینے پہنچے۔ دریں اثنا، موہت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کے سر، ہاتھ، کمر اور پیٹ پر چوٹ کے نشانات پائے گئے ہیں۔ جس پر ڈی سی پی ایسٹ ششانک سنگھ کا دعویٰ ہے کہ یہ نشانات اس لڑائی کے دوران لگی چوٹ سے آئے جو تھانے آنے سے پہلے ہوئی تھی۔ اس مار پیٹ کی اطلاع پر پولیس پہنچی تھی۔
اپوزیشن حملہ آور
اپوزیشن اس واقعے کو لے کر یوگی حکومت پر حملہ آور ہے۔ سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے انسٹاگرام پر لکھا کہ 'کاش جان لینے والے معاوضے کے طور پر اپنی جان دے سکتے۔ جن لوگوں نے دیوالی پر کسی کے گھر کا چراغ بجھایا، ہم امید کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ کے چراغ نہیں جلائیں گے، جھوٹی روشنی سے اپنی حکمرانی کے اندھیروں کو مٹانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ جس کی حراست میں موت ہوئی، اس پر بلڈوزر چلے گا؟'
وہیں عآپ لیڈر سنجے سنگھ نے بھی حکومت پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'اتر پردیش میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک دلت نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا تھا۔ اس لیے حکومت کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ایسی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔'
ایم ایل اے کی کال نے موہت کو لاک اپ بھیجا
اس معاملے میں بڑا انکشاف ہوا ہے۔ پولیس نے موہت پانڈے کو جس لڑائی کے لیے لاک اپ میں رکھا تھا، پولیس چوکی میں ہی حل ہو گیا تھا، لیکن گونڈا کے ایک ایم ایل اے کا فون موہت کو لاک اپ لے گیا، جہاں حراست میں اس کی موت ہو گئی۔ موہت پانڈے کے دوست راہل سنگھ کا کہنا ہے کہ 25 اکتوبر کو موہت کی آدیش سنگھ سے 600 روپے کے لین دین پر لڑائی ہوئی تھی۔ معاملہ پولس چوکی تک پہنچا، جہاں پولس کی موجودگی میں معاملہ حل ہو گیا، لیکن آدیش کے چچا وہاں پہنچے اور پولس اہلکار کی گونڈہ میں ایم ایل اے سے بات کرائی۔ اس کے بعد پولیس اہلکار موہت کو تھانے لے گئے اور وہاں اس کی پٹائی کرنے کے بعد اسے لاک اپ میں بند کردیا۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آدیش اور اس کے چچا گونڈہ سے بی جے پی ایم ایل اے کے لیے ٹھیکیداری کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن میں پہنچا معاملہ