'منور رانا کی ماں پر شاعری شہرت کے لیے تھی اصل شاعری تو مہاجر نامہ' لکھنو:ریاست اترپردیش کے لکھنو میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں انجمن اصلاح المسلمین کے سیکریٹری اطہر نبی معروف ادیب ڈاکٹر عصمت ملیح ابادی، منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا ڈاکٹر کوثر عثمان والی آسی کی بہن عائشہ آپا زید فاروقی اردو شاعر صیف بابر ملک زادہ جاوید پروفیسر رمیش دکشت بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے پروفیسر رمیش دکشت نے کہا کہ منور رانا ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے سبھی موضوعات پر بے باکانہ انداز میں شاعری کی ہیں انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ
سرپھرے لوگ ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں
ہم تواس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
آپ نے کھل کے محبت نہیں کی ہے ہم سے
آپ بھائی نہیں کہتے ہیں میاں کہتے ہیں۔
اس شعر سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی شکایت ہم وطن بھائیوں سے جس طریقے سے رہی ہے۔ وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ منور رانا ایسے شاعر تھے جو ہم وطن بھائیوں کو یہ احساس دلاتے رہے کہ اپ کا اپنے پڑوسی سے رابطہ بہتر نہیں ہے۔ وہ کبھی کہتے تھے کہ ہندوستان میں ہم 80 کروڑ ہندو بھائیوں کی نگرانی میں رہتے ہیں لیکن دوسری طرف اکثریتی طبقے سے ان کو شکایت بھی رہی۔وہ شکایت جائز بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اکثریتی طبقہ کے لیے شرم کی بات ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لوگ کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ ہوں اور ان کو خوف و حراس کا احساس ہوتا رہے۔
انہوں نے کہا کہ منور رانا نے اقتدار کو بھی للکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو یہ بے خوف اور نڈر شاعر کہا جاتا ہے انہوں نے لکھا کہ
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا
تو سن لے اے حکومت ہم تجھے نہ مرد کہتے ہیں
اتنا سخت تبصرہ حکومت کے خلاف شاید ہی کوئی شاعر کر سکتا ہے لیکن منور رانا نے معاشرے میں خلفشار پھیلانے والے شر پسند عناصر دنگا فساد کرنے والوں پر قدغن لگانے کے لیے بھی حکومت کو للکارا ہے۔ حکومت کو اپنے فرائض انجام دینے کی جانب متوجہ کیا جو موجودہ عہد کے شاعروں میں ناپید ہے۔
معروف ادیب ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے منور رانا کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا نے ماں پر جو شاعری کی ہے وہ ادبی شاعری نہیں ہے۔ وہ جذباتی شاعری ہے۔ جاہلوں کے لیے شاعری ہے۔ سطحی شاعری ہے ۔منور رانا کو پتہ تھا کہ اس کے ذریعے انہیں مقبولیت حاصل ہوگی لیکن مہاجر نامہ میں جو شاعری کی ہے۔ وہ ادبی شاعری ہے۔ وہ علمی شاعری ہے ۔ اس شاعری کے ذریعے منور رانا کے علمی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔
وہیں منور رانا کے استاد رہے والی اسی کی بہن عائشہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ منور کا مطلب روشنی ہے۔ ہم لوگ یہی چاہتے تھے کہ یہ روشنی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے لیکن منورہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی ادبی خدمات ہمیشہ یاد کی جائے گی۔ ماں پر لکھے گئے اشعار زبان زد عوام و خواص ہیں۔ ماں جیسے پاک رشتے کو جس طریقے سے انہیں شاعری میں پرویا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
کنگ جارج میڈ یکل یونیورسٹی پروفیسر کوثر عثمان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے تعلقات تقریبا 20 برس قدیم ہیں۔ پہلی بار ان سے بطور مریض و معالج ملاقات ہوئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ ملاقات اس قدر مضبوط ہوئی کہ میں ان کا مریض و مرید ہو گیا۔ان کے ساتھ بے حد معلوماتی گفتگو ہوتی تھی۔
وہیں منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے بتایا کہ منور انا کی شخصیت کے تعلق سے کوئی بحیثیت شاعر بحیثیت ادیب بحیثیت نیک انسان بات کرتا ہے لیکن میں ایک اچھے والد کے طور پہ بات کروں گی کہ منور رانا نہ صرف ایک بہترین شاعر بہترین انسان اور بہترین ادیب تھے بلکہ ایک بہترین والد کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دی۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے اور بچوں کی جس طریقے سے پرورش کی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ادبی محفل اور مشاعرے میں گورکھ پانڈے کو پیش کیا گیا خراج عقیدت
انہوں نے ثابت کیا کہ وہ اپنی ایک علم فن اور کمال کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں راج کیا ہے ۔ان کا اس دنیا سے جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اب ہم ان کے بچے ہیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کے نیک اور اچھے اولاد کیسے ہو سکتے ہیں۔