پٹنہ: ایک زمانہ تھا جب پڑھنے والے طالب علموں کے لئے ایک محاورہ عام تھا کہ 'کھیلو گے کودو گے تو ہوگے خراب، پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب' لیکن آج کے دور میں یہ محاورہ بالکل غلط ان بچوں کے لئے ہو رہا ہے جو کھیل کے لیے کڑی محنت اور جدو جہد کرتے ہیں۔
کھیل میں ہی اپنا مستقبل تلاش کرنے میں لگے ہیں۔ مختلف کھیلوں اور کھلاڑیوں کو بہت فروغ دیا جا رہا ہے اور اس میں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کا بھی کافی تعاون مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بہار میں بہت سے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی شناخت بنائی ہے۔
ایسا ہی ایک کھلاڑی ریاست بہار کے گیا ضلع سے ہیں۔ ملت کالونی کے رہنے والے حذیفہ قیصر ایک رننگ کے ایتھلیٹ ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر چاندی کا تمغہ بھی جیت چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ریاست کا اعزاز اور وقار بڑھانے کے لیے انھیں 5 ستمبر کو پٹنہ میں منعقدہ ایک تقریب میں بہار اسٹیٹ اسپورٹس ایوارڈ سے نوازا گیا اور ساتھ میں 16 لاکھ 66 ہزار 500 روپے کا چیک بھی دیا گیا۔
اس وقت حذیفہ پٹنہ میں رہ کر آئندہ مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں اور ان کا خواب اولمپک گیمز شامل ہوکر ملک کا نام روشن کرنا ہے۔ حذیفہ قیصر کی اس کامیابی پر ان کے اہل خانہ میں خوشی کا ماحول ہے اور وہ ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا کر مبارک باد پیش کرکے حذیفہ کے روشن مستقبل کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
حذیفہ قیصر کا آبائی گھر بہار کے جہان آباد ضلع میں ہے جبکہ اس کا نانیہال ضلع گیا کے بیلا گنج حلقہ میں واقع ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے حذیفہ کے والدین گیا شہر کے عنایت کالونی میں واقع ایک کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔
معاشی طور پر کمزور حذیفہ کے والد محمد قیصر عالم کولکاتا میں ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں جبکہ حذیفہ کی والدہ وحیدہ تبسم گھریلو زندگی کے ساتھ سلائی کڑھائی کر گھر بار چلانے میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
معاشی تنگی کے باوجود محمد قیصر عالم بچوں کی تعلیم اور انکے شوق میں کوئی کمی نہیں ہونے دیا، پڑھائی کے ساتھ حذیفہ قیصر کو ایتھیلیٹ کی تیاری بھی کروائی۔ حذیفہ اسکولی تعلیم کے بعد سے مسلسل پٹنہ میں رہ کر تیاری کر رہا ہے۔ حالانکہ اس دوران وہ ملک کے کئی ریاستی مقابلوں میں شریک ہوکر دوڑ کی تیاری کی ہے۔
حذیفہ کو بچپن سے دوڑنے کا شوق تھا
حذیفہ قیصر کو بچپن سے ہی 'رننگ' کا شوق تھا تاہم ان کا یہ شوق تب پروان چڑھا جب وہ ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم تھے اور اسکول کے ایک اسپورٹس پروگرام کے دوران دوڑ میں اول مقام حاصل کیا۔ اس وقت انہیں اسکول کی طرف سے توصیفی سند اور میڈل سے نوازا گیا۔ تبھی سے وہ خود پر اور ان کے گھر والوں نے حذیفہ پر محنت شروع کی۔