سرینگر: جامع مسجد سرینگر کے بعد عالی مسجد کشمیر کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے اور یہ تاریخی اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل ہے ۔عالی مسجد سرینگر کے عیدگاہ علاقے میں واقع ہے اور اس کی تعمیر 1470 عیسوی میں سلطان حسن شاہ کے دور میں ہوئی ہے۔ عالی مسجد کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عیدگاہ کے اندر تعمیر کی گئی ہے۔ عموماً عیدگاہوں کے اندر مساجد نہیں ہوا کرتی ہیں لیکن کشمیر کے سخت موسم کو ملحوظ رکھ کر اس دور میں مسجد کو عیدگاہ میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
قدیم عالی مسجد جو کہ کشمیر میں "عیل مسجد" کے نام سے مشہور ہے وسطی ایشائی، مغل طرز اور کشمیر کے فن تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ مسجد کی بناوت اینٹ ،پتھر اور دیودار کی لکڑی سے کی گئی ہے۔ انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہریٹیج (انٹیک) جموں وکشمیر کے کنونئیر محمد سلیم بیگ کہتے ہیں کہ سال 2007 سے 2008 میں اس مسجد کی تجدید و مرمت عمل میں لائی گئی اور اپنی حوبحو اپنی شکل میں اس سے بحال کیا گیا۔
عالی مسجد کئی دہائیوں تک غیر آباد بھی رہی۔تاہم حکومت کی جانب سے اس تاریخی مسجد پر خاص توجہ دی گئی اور بعد میں سال 2009 میں باضابطہ طور یہ نمازیوں کے لیے کھول دی ۔آج کی تاریخ میں یہاں نہ صرف نماز پنج گانہ بلکہ نماز جمعہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ وہیں مقامی آبادی کے علاوہ دوردراز علاقوں کے لوگ بھی عالی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ عالی مسجد کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں جن رہتے ہیں۔اور اس بات کی تصدیق ایک مقامی بزرگ بھی کررہا ہے ۔ان کا کہنا ہے ایک مرتبہ جب میں فجر کی اذان دینے کے لیے اندر داخل ہوا تو ایک عجیب اور خوفناک شور سنائی دیا۔ جس سے مجھے محسوس ہوا کہ یہ واقعی یہاں جنیات ہیں۔لیکن آثار قدیمہ کے ماہرین اس سے افواہ سے تعبیر کرتے ہیں اس بات کو ماننے انکار کرتے ہیں ۔
عالی مسجد چاکور کی شکل میں ہے۔جس کی لمبائی 220 جبکہ چوڑائی 135فٹ کی ہے۔گنجائش کے حساب سے اس مسجد میں 2 ہزار سے زائد لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ وہیں مسجد کے اندر اور باہر دیودار لکڑی کے بنائے گئے لمبے ستون موجود ہیں جو کہ برابر چھت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ یہ لمبے ستون اور چھت پر اس طرح کی دلکش اور منفرد نقش و نگاری اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے ۔
جب ہم عالی مسجد کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہے تو یہ 6سو سال کے عرصے کے دوران یہ آگ کی واردتوں کی شکار بھی ہوئی ہے۔پہلی بار اس کی از سر نو تعمیر بادشاہ جہانگیر کے دور ہوئی اور دوسری بار اٹھارویں صدی میں افغان دور میں سردار گل احمد کے دور ہوئی ۔اس کے بعد وقتاً فوقتاً مسجد کی تجدید و مرمت کا کام ہوتا رہا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں اس کی پھر مرمت ہوئی ۔مرمت کے دوران راویتی لکڑی سے بنی چھت جس پر پھول اگتے تھے اس سے بدل دیا گیا۔