سرینگر:انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر کے سربراہ اور میرواعظ کشمیر ڈاکٹر میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے کہا کہ انہوں نے کبھی بندوق یا تشدد کے ذریعے مسئلۂ کشمیر کے حل کی وکالت نہیں کی ہے اور انتخابات کو مسئلۂ کشمیر کا حل نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حریت کبھی بھی انتخابات کے خلاف نہیں تھی بلکہ "انتخابات کو کشمیر کے اس گمبھیر مسئلے کے حل کے طور پر پیش کرنے کے دعوؤں کے خلاف ہے جو گزشتہ دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔
تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو حکومت ہند کی جانب سے یکطرفہ فیصلہ لیا گیا۔ ہم ہمیشہ سے خطے میں دائمی امن کے لیے اس مسئلے کو حل کرنے کے پرامن ذریعہ کے طور پر بات چیت کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حریت قیادت ہی تھی جس نے اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی اور منموہن سنگھ سمیت اس وقت کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی۔
کشمیر کا مسئلہ جنگ کی شکل اختیار کرنے سے پہلے حل کیا جانا ضروری
میرواعظ نے کہا کہ اس سے قبل کہ کشمیر بدصورت شکل اختیار کرے اس کشمیر مسئلہ کا حل کیا جانا چاہیے۔ ’’ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ممالک ایک مہلک جنگ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا دوہرا معیار ہے کیونکہ وہ ایک طرف جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو فلسطین، ایران اور لبنان پر بمباری کے لیے خصوصی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مسئلۂ کشمیر ایک بدصورت موڑ لینے اور جنگ کی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا ’’میرا ماننا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے اسی طرز عمل کی ضرورت ہے۔ 5 اگست 2019 کو ہمارے سیاسی حقوق چھین لیے گئے اور ہم زمین کے حقوق، نوکریوں اور دیگر حقوق پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھے۔ میرواعظ محمد عمر فاروق نے مزید کہا کہ حریت نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں دیکھنا چاہتی۔ کیونکہ ’’کشمیر تنازعہ‘‘ پہلے ہی تین نسلوں کو کھا چکا ہے۔ میرواعظ نے کہا کہ "ہم ہمیشہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے بامعنی بات چیت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔
کیا کشمیر کی سیاسی جماعتیں لوگوں کے حقوق کی محافظ ہیں
جموں و کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر طنز کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ ان سب نے دعویٰ کیا کہ وہ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہوتے تو انہیں متحد ہو کر لڑنا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے کشمیر کے وسیع تر مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔
انہوں نے کہا کہ حریت کبھی بھی انتخابات کے خلاف نہیں تھی بلکہ ان دعوؤں کے خلاف تھی کہ یہ انتخابات کشمیر مسئلہ کا حل یا استصواب رائے ہیں۔ "حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی یا لوک سبھا انتخابات صرف روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے ہیں جن میں سڑک، بجلی اور پانی شامل ہیں۔ بڑا مسئلہ جو کہ سیاسی تنازعہ ہے وہیں رہ گیا ہے۔