سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں خواتین کو مساوی حقوق اور نمائندگی دینے کی حامی ہیں لیکن انتخابات، خاص طور پر لوک سبھا الیکشن، میں انہیں ٹکٹ دینے میں ہمیشہ بخل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ جموں و کشمیر سے 1967 سے 2019 تک پانچ بار صرف تین خواتین پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں۔ خواتین، کشمیر ڈویژن سے چار بار جبکہ لداخ سے صرف ایک پارلیمنٹ کی دہلیز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں ہیں تاہم اب تک ایک بھی خاتون جموں ڈویژن سے پارلیمنٹ کے لیے منتخب نہیں ہوئی ہے۔
ان دنوں لوک سبھا انتخابات 2024 کے حوالے سے ماحول ضرور گرم ہے اور تمام سیاسی جماعتیں خواتین ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کے علاوہ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے خاتون امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ہے۔
جموں و کشمیر سے پہلی خاتون رکن اسمبلی مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی اہلیہ اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی والدہ اکبر جہاں بیگم تھی۔ 1977 میں وہ نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر سرینگر لوک سبھا سیٹ سے ایم پی منتخب ہوئیں۔ پھر 1984 میں دوسری بار وہ اننت ناگ سیٹ سے پارلیمنٹ پہنچی۔ اکبر بیگم کے بعد رانی پاروتی دیوی ڈیسکت وانگمو کانگریس کے ٹکٹ پر 1977 میں لداخ سے ایم پی بنیں۔ پاروتی دیوی کو لداخ کی رانی ماں کہا جاتا ہے۔ پاروتی دیوی، تقریباً 90 سال کی ہیں، اس وقت دہرادون، اتراکھنڈ میں رہائش پذیر ہیں اور سیاست سے ریٹائر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے 1977 میں کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور اپنے واحد حریف آزاد امدیدوار محمد علی عرف علی کرگلی کو 2877 ووٹوں سے شکست دے کر لوک سبھا میں اپنی جگہ حاصل کی۔
رانی پاروتی کے پارلیمنٹ پہنچنے کے 27 سال بعد سال2004 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس کے محبوب بیگ کو شکست دی اور اننت ناگ نشست پر کامیابی حاصل کی اور پہلی بار ایم پی منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد وہ دوسری بار اننت ناگ سیٹ سے ایم پی بنیں اورسال 2014 میں پھر ایک بار انہوں نے محبوب بیگ کو شکست دی۔ اور اس طرح 52 برسوں میں جموں و کشمیر کی خواتین صرف پانچ بار پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں۔ دلچسپ امر ہے کہ ابھی تک جموں و کشمیر سے بی جے پی کی کوئی بھی خاتون رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ جموں کشمیر اور لداخ سے آزاد خواتین امیدوار الیکشن لڑتی رہی ہیں، لیکن کبھی جیت نہیں سکیں۔