میر فرحت
سرینگر: انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان طے شدہ مسائل کو اس طرح اٹھانا نہیں چاہیے جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کرتی ہے۔‘‘
محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں معقول بات کرنی چاہیے اور ان مسائل کو ہرگز نہیں چھیڑنا چاہیے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کو بڑھائیں۔ اگر ہم ان طے شدہ معاملات کو اٹھاتے ہیں، تو (اس کا مطلب ہے کہ) ہم بی جے پی کی لائن پر چل رہے ہیں۔‘‘ پیر کو نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں، عمر عبداللہ نے سندھ آبی معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) کی ایسی شقوں پر بات کی جو جموں و کشمیر کو مکمل ہائیڈرو پاور پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے سے (ریاستی حکومت کو) روکتی ہیں اور صرف ’رن آف دی ریور‘ پروجیکٹس کی اجازت دیتی ہیں۔
عمر عبداللہ نے کہا: ’’سردیوں کے سخت موسم میں جب بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے تو جموں و کشمیر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست (جموں کشمیر) کو دیگر ریاستوں سے بجلی درآمد کرنا پڑتی ہے جس کا منفی اثر اس کی معیشت پر پڑتا ہے۔‘‘ محبوبہ نے نیشنل کانفرنس کی قیادت پر الزام عائد کیا کہ اس نے نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی NHPC) کو آٹھ پاور پروجیکٹس بیچ دیے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جو بجلی ہم پیدا کرتے ہیں وہ ہماری ہی ہے؟ شیخ عبداللہ نے بطور وزیر اعلیٰ سلار پاور پروجیکٹ (مرکزی حکومت کو) دیا، پھر فاروق عبداللہ نے این ایچ پی سی کو سات دیگر پاور پروجیکٹس دے دیے۔‘‘
محبوبہ نے کہا کہ حکومت کو کم از کم دو پاور پروجیکٹس کی واپسی یا ان کے لیے معاوضے کے لیے مرکزی حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر واحد ایسی ریاست ہے جو ہائیڈرو الیکٹریسٹی پیدا کرنے کے باوجود اندھیرے میں ہے، جب کہ بی جے پی ہر ریاست میں مفت بجلی یونٹس کا وعدہ کرتی ہے، پھر بھی ہم اندھیرے میں ہیں۔ حکومت کو رنگا راجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاور پروجیکٹس کی واپسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔‘‘